جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتیسیوں چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا ہے ۔ ان کے پیش رو جسٹس عمر عطاء بندیال اپنی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہوگئے ۔ جسٹس عمر عطابندیال کا دور سپریم کورٹ کے لیے ایک بھاری دور تھا۔اس دور کے سیاسی تنازعات اور کشمکش نے سپریم کورٹ کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ۔ سیاسی مقدمات جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو عدالتوں کے لیے ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے ۔پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جب سیاسی فریق کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو وہ اسے انصاف کی فتح قرار دیتا ہے اور جس کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ اسے انصاف کا قتل قرار دیتا ہے ۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کے متنازعہ ہونے سے ایک پریشان کن فضا بنتی ہے ۔ججوں کے سیاسی رجحانات اور ان کی سیاسی وابستگیوں کی باتیں ہونے لگتی ہیں ۔ کئی مرتبہ اعلیٰ عدالتوں نے سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیاسی تنازعات آپس میں بات چیت کے ذریعے طے کریں ان تنازعات کو عدالتوں میں نہ لایا جائے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ میز پر بیٹھ کر جھگڑوں کا فیصلہ کرلیں ،اگر وہ ایسا کرسکتے تو پاکستان کا نقشہ بالکل مختلف ہوتا ۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کے دور میں سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کے کئی ریفرنسز دائر کیے گئے۔انہی کے دور میں تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا گیا ۔ عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال آگیا جس کی لپیٹ میں سارے ادارے آگئے ۔ بندیال دور میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑی گئیں لیکن ان اسمبلیوں کے از سر نو انتخابات نوے روز کی آئینی مدت میں کرانے کا آئینی تقاضہ پورا نہ ہو سکا جس کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور پنجاب میں نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس حکم سے انحراف کیا گیا اور عمل درآمد نہیں ہوا ۔ خود سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں اختلاف رائے سامنے آیا ۔ ایک تاثر یہ بھی ابھرا ،جسے پی ڈی ایم حکومت نے تقویت دی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ان کے دور میں سپریم کورٹ کے ایک جج پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے اور حکومت وقت کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہوا کہ انہیںبنچ سے الگ کردیا جائے اور وہ کسی سیاسی کیس کا مقدمہ نہ سنیں ۔ مذکورہ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست بھی دائر کی گئی ۔ سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ سے ریلیف بھی ملا جسے جسٹس بندیال کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ جسٹس بندیال پر دبائو تھا اوران کے ساتھی ججز کاسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بارے میں کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ سامنے آگیا جس کو جسٹس بندیال نے اہمیت نہ دی ۔ان پر ہم خیال ججوں کا بنچ بنانے کا بھی الزام لگا ۔ ریٹائرمنٹ سے دو روز قبل چیف جسٹس نے تحریک انصاف کی طرف سے دائر کی گئی نیب قوانین میں سابق اسمبلی کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا جس سے شریف خاندان اور زرداری خاندان سمیت کئی دوسرے سیاستدانوں و دیگر کے خلاف کیسز دوبارہ کھل گئے۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دور آگیا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنسز کو بھگت چکے ہیں۔ان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ جرأت مند جج ہیںاور وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی ریمارکس اور فیصلے دے چکے ہیں ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ میں جج صاحبان میں پیدا ہونے والے اختلافات کا خاتمہ ہے ۔پاکستان کے وکلاء اور عام لوگ سپریم کورٹ میں تقسیم کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں ۔دنیا بھر کی اعلیٰ عدالتوں میں آئینی اور قانونی معامالات میں اختلاف رائے ہوتا آیا ہے جس کا اظہار وہ اختلافی نوٹ کے ذریعے کرتے ہیں لیکن یہ تاثر کہ جج کسی خاص سیاسی جماعت یا گروپ کی حمایت کررہے ہیں یا جھکائو رکھتے ہیں ،منفی تاثر قائم کرتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی عدالیہ کی تاریخ عدلیہ کے تحفظ کے حوالے سے ہمیشہ افسوسناک رہی ہے۔جسٹس منیر جنہوں نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ایجاد کرکے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا ایک ایسی روایت ڈالی جس کو بعد میں آنے والوں نے بھی فالو کیا ۔یحییٰ خان کے مارشل لاء کو انکے انتقال کرجانے کے بعد غیر آئینی قرار دیا گیا ، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو بھی عدلیہ نے تحفظ دیا اور بیگم نصرت بھٹو کی مارشل لاء کے خلاف درخواست کو رد کردیا ۔منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دے دی اور بعد میں اس بنچ نے جس نے بھٹو صاحب کو پھانسی دی تھی ،میں شامل ججوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دبائو کے تحت بھٹو کو پھانسی لگانے کا فیصلہ دیا تھا ۔جنرل پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر 1999ء کے ٹیک اوور کو نہ صرف عدالت نے قانونی تحفظ دیا بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ماضی میں عدلیہ کی شہرت اور وقار پر لگنے والے داغوں کو کسی حد تک مٹاسکتے ہیں۔ یہ وقت بتائے گا لیکن ان کے سامنے اس وقت بڑا چیلنج یہی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے ،عدالت کے طریقہ کار ،بنچوں کی تشکیل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے پاس صرف تیرہ ماہ باقی ہیں اس مختصر عرصے میںعدالتی نظام کو کس حد تک آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں ،مقدمات کے ’’بیک لاگ ‘‘کو کس طرح کم کرسکتے ہیں اور ماتحت عدلیہ میں پائی جائی والی عوامی شکایات کو دور کرسکتے ہیں۔’’گڈ لک ٹو یو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘‘۔