بریگیڈیئر صولت رضا کی دو کتابیں ’’کاکولیات ‘‘ اور ’’غیر فوجی کالم‘‘ تو میں نے کافی عرصے پہلے پڑھ لی تھیں ۔ اب تو ان کی تیسری کتاب ’’پیچ و تاب زندگی ‘‘ جوکہ ان کی خود نوشت ہے چند روز پہلے ملی ہے ۔بریگیڈیئر صاحب نے مہربانی کی اور خاکسار کو یاد رکھا اور کتاب گھر کے ایڈریس پر بھیج دی ۔ بریگیڈیئرصولت رضا کو آئی ایس پی آر کی ’’دائی ‘‘ کہنا غلط نہ ہوگا ۔ وہ اس ادارے کی اندر کی باتیں خوب جانتے ہیں ۔ فوج کے تعلقات کا رکے اس ادارے کا ایک دور وہ تھا جب فیض احمد فیض بھی اس کا حصہ رہے ہیں اور ایک دور میں ممتاز صحافی اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلیہری بھی فوجی رینک کیساتھ آئی ایس پی آر کے سربراہ رہ چکے ہیں ۔آئی ایس پی آر کا دوسرا دور جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء سے شروع ہو اجب بریگیڈیئر صدیق سالک اس ادارے کے سربراہ بنے ۔ اس سے پہلے بریگیڈیئر تفضل صدیقی اس کے کرتا دھرتا رہے ۔ بریگیڈیئرصولت رضا نے اپنے کیریئر کا آغاز آئی ایس پی آر سے کیا ۔ کیپٹن ، میجر ،لیفٹیننٹ کرنل اور پھر بریگیڈیئر بنے ۔اس عرصے میں انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ ،جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کو بھی بھگتایا ۔ میری بریگیڈیئرصولت رضا سے شناسائی اس وقت سے ہے، جب وہ میجر تھے، پھر کرنل بن گئے ۔ اس وقت میں روزنامہ نوائے وقت میں رپورٹر تھا ۔آئی ایس آئی کا نظام کیسے چلتا ہے؟ اس کی دلچسپ تفصیل ’’پیچ و تاب زندگی ‘‘ میں موجود ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے چونکہ ملک کے ایک پاپولر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی دے دی تھی، اس کے لئے ان کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ انتہائی سخت شخص ہیں۔ بریگیڈیئرصولت رضا نے جنر ضیاء الحق کے طرز عمل اور خاص طور پر میڈیا کے ساتھ ان کے مراسم کے کچھ ایسے پہلوئوں کا تذکرہ کیا ہے، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی شخصیت تھے جو معاملہ فہم تھے اور درگزر سے کام لیتے تھے ۔ خودبریگیڈیئرصولت رضا کے’’ کالم ‘‘جو انہوں نے کسی اور کے نام سے لکھا تھا ، طشت بام ہونے کے باوجود جنرل ضیاء الحق نے درگزر سے کام لیا حالانکہ اس میں موصوف کے لتے لیے گئے تھے ۔ بریگیڈیئرصولت رضا میجر تھے اور میری ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں تو میں نوائے وقت کا دفاعی امور کا رپورٹر تھا ۔ بریگیڈیئرصولت رضا نے مجھے بتایا کہ وہ نوائے وقت مین بطور سب ایڈیٹر کام کرچکے ہیں۔’’پیچ و تاب زندگی ‘‘ میں بریگیڈیئرصاحب جنرل ضیاء الحق کے1988ء میںطیارے حادثے کے بعد جب جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے تو ان کے دور کو بھی انہوں نے قریب سے دیکھا اور چند دلچسپ واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے تو یہ پاکستان کے لیے ایک مشکل ترین دور تھا ۔جنرل اسلم بیگ کے پاس موقع تھا کہ وہ ملک میںمارشل لاء لگادیتے لیکن انہوں نے جمہوریت کی طرف پلٹنے کا اعلان کیا ۔چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان،صدر مملکت بن گئے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ ۔اس دوران بے نظیر بھٹو نے سپریم کورٹ میںدرخواست دائر کی تھی کہ ملک میں غیر جماعتی کی بجائے جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے جائیں۔سپریم کورٹ نے اس پر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے 17اگست 1988ء کو طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے سے پہلے 13اگست 1988ء کو نوائے وقت،دی نیشن پینل کو آرمی ہائوس میں پینل انٹرویو دیتے ہوئے اس خاکسار کے سوال کے جواب میںکہا تھا کہ جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائیں گے لیکن قدرت نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ۔ اس پینل انٹرویو میں عارف نظامی ،نصرت جاوید ،ماریانہ بابر اور انور قدوائی بھی تھے ۔سپریم کورٹ میں محمد خان جونیجو کی بر طرفی سے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا ۔ایک مرحلے پر سپریم کورٹ جونیجو حکومت کو بحال کرنے پر آمادہ تھی لیکن جنرل اسلم بیگ نے مداخلت کرکے جونیجو حکومت کی بحالی کا راستہ روک دیا تھا اور 1988ء کے جماعتی انتخابات کرانے کی راہ ہموار کی ۔ ’’پیچ و تاب زندگی ‘‘ پڑھ کر یہ خاکسار بھی ’’پیچ و تاب ‘ کھا رہا ہے کیوں کہ کئی واقعات یاد آرہے ہیں جو بریگیڈیئر صاحب نے نظر انداز کیے ہیں اوراچھا کیا ہے ۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ بھی شاید قانون بن گیا ہے ۔جنرل مرزا اسلم بیگ کے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انتخابات ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری، تاہم پنجاب میں پی پی پی کی اکثریت کو ’’کٹ ٹو سائز ‘‘کردیا گیا ۔پنجاب مسلم لیگ (ن) کے حوالے کردیا گیا ۔نوازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور انہوں نے وفاق میں بے نظیر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا ۔بے نظیر کو عسکری حلقے سیکورٹی رسک قرار دینے لگے۔جب 1988ء میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد کے دورے پر آئے تو انہیں سندھ ہائوس میں ٹھہراگیا ۔ سندھ ہائوس کے راستے میں’’کشمیر ہائوس ‘‘ کا بورڈ تھا جسے راتوں رات ہٹا دیا گیا تھا تاکہ راجیو گاندھی کو کشمیر ہائوس کا بورڈ ناگوار نہ گزرے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ’’باریک کام ‘‘ کسی اور نے کیا تھا ۔ ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب 1990 ء میں بے نظیر حکومت کو آرٹیکل 58(2) b کے تحت صدراسحاق خان نے چلتا کیا اور نوے دن میں نگران حکومت نے انتخابات کرائے تو نوازشریف وزیر اعظم بن گئے اور بے نظیر بھٹو نے ان انتخابی نتائج کو چوری شدہ نتائج قرار دیا اور احتجاج شروع کردیا ۔نوازشریف کی آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے’ ان بن‘ رہنے لگی ۔ مجھے یاد ہے جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اورخلیج کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان سے اپنی فوج خلیج میں بھیجنے کے لیے امریکہ اور سعودی عرب نے درخواست کی ۔نوازشریف فوج بھیجنے کے حق میں تھے اور تیاریاں بھی ہورہی تھیں تو آئی ایس پی آر نے جس کے لیفٹیننٹ کرنل صولت رضا ایک فعال آفیسر تھے ،دفاعی نامہ نگاروں سے رابطہ کیا اور کہا کہ آرمی چیف پی او ایف واہ میں اہم خطاب کریں گے۔ ہم سب پی او ایف واہ پہنچ گئے ،جہاں ایک تقریب تھی جس میں جنرل اسلم بیگ نے خلیج کی جنگ پر بھی اظہار خیال کیا اور امریکہ اور عراق پر حملے کے خلاف سٹریٹیجک ڈیفائنس Stratigic Defienceکا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق پاکستان ،افغانستان اور عراق کو مشترکہ طور پر ڈیفنس یا مزاحمت کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا گیا تھا ۔اس خطاب نے نوازشریف حکومت کو ہلاکر رکھ دیا کیونکہ نواشریف چاہتے تھے کہ گلف وار میں فوج بھیج کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے فنڈز لیے جائیں لیکن جنرل اسلم بیگ کے بیان سے اتحادی ناراض ہوئے ۔فوج بھیجنے میں قدرے تاخیر ہوئی اور شنید تھی کہ پاک فوج کو سعودی عرب میں یمن کے بارڈر پر تعینات کیا گیا تھا اورعرصہ بھی کم دیا گیا جب کہ مصر نے اس جنگ میں فوج بھیج کر مغربی ملکوں سے اپنا 20ارب ڈالر کا قرضہ معاف کرالیا ۔ جنرل اسلم بیگ 1990ء کے انتخابات کے بعد اس وقت کے نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کو ہی اگلا وزیر اعظم رکھنا چاہتے تھے جس کی بھنک نوازشریف کو پڑی تو انہوں نے اس منصوبے کا ناکام بنادیا اور خود وزیر اعظم بن گئے ۔یہ چند وجوہات تھیں جن کے باعث نوازشریف اور جنرل بیگ میں ان بن رہی ۔ وزیر اعظم نوازشریف نے صدر اسحاق خان سے رابطہ کرکے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ پہلے جنرل آصف نواز کو نیا آرمی چیف نامزد کردیا تھا ۔ ( جاری ہے )