Common frontend top

محمد اظہارالحق


کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں


انوریؔ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں موجودہ ترکمانستان میں پیدا ہوا۔ مشکل پسند شاعر تھا۔ قصائد معرکے کے لکھے۔ ایک بہت معروف قطعہ ہے جو انوری کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے: در شعر سہ کسی پیمبرانند ہر چند کہ ’’لانبیّ بعدی‘‘ ابیات و قصیدہ و غزل را فردوسی و انوری و سعدی یعنی یہ درست ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا مگر یہ تین اشخاص شعر کی دنیا کے پیغمبر ہیں۔ اشعار (یعنی مثنوی) میں فردوسی‘ قصیدہ گوئی میں انوری اور غزل میں سعودی! اگر یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو یہ مشہور عالم فقرہ۔ ’’شعرِ مرا بہ مدرسہ کہ بُرد’’بھی انوری
اتوار 18 نومبر 2018ء مزید پڑھیے

زیارت حرمین۔چند مشاہدات

هفته 17 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
فیس بُک پر اپنے حج اور عمرے کا اعلان کرنے والوں کو تو آپ اَن فرینڈ یا بلاک کر سکتے ہیں مگر اُن کا کیا کریں گے جو احرام باندھ کر ‘ کعبہ کے گرد‘ طواف کے دوران سیلفیاں لیتے ہیں؟ عجیب ہوا چلی ہے۔ عام طواف کی نسبت عمرے کا طواف ایک نازک عبادت ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے جانا‘ جسمانی مشقت برداشت کرنا اور پھر طواف کے دوران دعا مانگنے‘ تسبیح و تہلیل کرنے یا درود پاک پڑھنے کے بجائے سیلفیاں لینا ایک ناقابل فہم سرگرمی ہے۔ اس میں حسب توفیق پاکستانی اور غیر پاکستانی سب شامل
مزید پڑھیے


ایک بار پھر بُلا لیجیے!

جمعرات 15 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
قطار طویل تھی اور صبر آزما! ہم انچوں کے حساب سے آگے بڑھ رہے تھے سب کچھ نہ کچھ زیر لب پڑھ رہے تھے۔ کچھ حمدو ثنا‘ کچھ درود شریف، کچھ کلام پاک کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ پھر بائیں طرف جالیاں دکھائی دیں۔ زردی مائل سنہری جالیاں‘ دائیں جالی پر جلی حروف میں آیت لکھی تھی۔’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو اور نہ ان کی خدمت میں حاضری کے وقت زور سے بولو جیسے ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں‘‘ روضۂ مبارک پر یہ
مزید پڑھیے


جہاں وقت انسانی قدموں کے نیچے ہے

هفته 10 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
وہ سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں ہیں۔ سرمئی رنگ کے اور سفید! کچھ سنہری! ابراہیم خلیل روڈ پر آپ جا رہے ہوں تو سامنے دائیں طرف کلاک ٹاور ہے۔ بالکل سامنے حرم کی سیڑھیاں ہیں۔ کلاک ٹاور سے پہلے، دائیں طرف بڑا سا میدان ہے۔یہیں پر یہ سینکڑوں، ہزاروں کبوتر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کھلانے کے لیے لوگ باگ قیمتاً گندم کے اور باجرے کے اور چاول کے دانے خریدتے اور ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ایک ڈار اترتی ہے ایک جاتی ہے۔ کچھ کبوتر اڑتے ہیں اور زمین سے چند فٹ ہی اوپر رہتے ہوئے کچھ گز دُور پھر
مزید پڑھیے


قافلوں کے غبار میں مٹی کا ایک ذرّہ

جمعرات 08 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
نور کے قافلے رواں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں قافلے۔ چہار دانگِ عالم سے! مشرق سے اور مغرب سے۔ شمال سے اور جنوب سے! ان قافلوں کے غبار کا ایک ذرّہ یہ کالم نگار بھی ہے۔ ایک حقیر ذرہ۔ ان قافلوں کے مسافروں کے جوتوں پر پڑا ہوا ایک ذرّہ۔ مگر کیا اس سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہے؟ چودہ صدیوں سے یہ قافلے رواں ہیں۔ بطحا کی وادی میں اور مدینہ کے شہر میں پہنچتے ہیں۔ سبز گنبد کو دیکھتے ہیں۔ نگاہوں سے چومتے ہیں۔ اُن گلی کوچوں پر پلکیں بچھاتے ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے تھے۔ اور کیا ہی مقدس پائوں تھے۔ محبت کرنے
مزید پڑھیے



چوائس ہمارا اپنا ہے!

پیر 05 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
آپ اس طبقے کی طاقت اور دیدہ دلیری کا اندازہ لگائیے ۔کھرب پتی وفاقی وزیر کو وسیع و عریض فارم حاصل کر کے بھی چین نہ آیا۔ چنانچہ انہوں نے ساتھ پڑی ہوئی سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ پریس کا کہنا ہے کہ یہ قبضہ کئی کنال پر مشتمل ہے۔ جبکہ وزیر صاحب نے صرف پانچ یا چھ کنال پر قبضے کا اعتراف کیا ہے‘ غیر قانونی باڑ بھی لگائی۔ اب وہ مضحکہ خیز منطق ملاحظہ کیجئے جو اس طبقے کا خاصہ ہے۔ فرماتے ہیں ’’میں پہلے ہی سی ڈی اے سے درخواست کر چکا ہوں کہ میرے فارم
مزید پڑھیے


تین نحوستیں جو خم ٹھونک کر سامنے کھڑی ہیں

جمعرات 01 نومبر 2018ء
محمد اظہارالحق
یہ جو گائے کا معاملہ ہوا ہے اور وفاقی وزیر اعظم سواتی کا اور آئی جی کے تبادلے کا اور مارپیٹ اور تھانے کچہری کا… تو اس سے ایک بار پھر وہ تین نحوستیں، لباس اتار کر، برہنہ حالت میں، قوم کے سامنے آ گئی ہیں جو ستر برس سے کالے بادلوں کی طرح چھائی ہوئی ہیں۔پہلی نحوست یہ ہے کہ نوکر شاہی بالعموم اور پنجاب اور وفاق میں بالخصوص،عوام کے لیے اپنا دروازہ کھولتی ہے نہ فون سنتی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ آئی جی نے بائیس گھنٹے تک ان کا فون نہیں سنا۔ ایک لمحے کے لیے
مزید پڑھیے


چھوٹے دن اور لمبی رات

منگل 30 اکتوبر 2018ء
محمد اظہارالحق
کوئی تختِ حکومت پر ہو یا تختۂ دار پر رُت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ وقت بے نیاز ہے۔ اسے کیا پرواہ کہ ؎ کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا جاڑے کی آمد آمد ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ پھر جاڑے کی رُت آئی چھوٹے دن اور لمبی رات کبھی خلاقِ عالم کی صناعی پر غور کرو، بچھاتا ہے سنہری دھوپ سرما میں زمیں پر کڑکتی دوپہر میں سر پہ چادر تانتا ہے باغ میں ہر طرف پیلے، خشک پتے! ہوا چلے تو یہ اُڑتے ہیں۔ کھڑ کھڑاتے ہیں۔
مزید پڑھیے


ایک اور سفید ہاتھی

اتوار 28 اکتوبر 2018ء
محمد اظہارالحق
کیسا بدقسمت بیمار ہے۔ پڑا کراہ رہا ہے‘ گردے میں درد ہے۔ آنکھوں سے دکھائی کچھ نہیں دے رہا۔ ٹانگیں جواب دے رہی ہیں۔ کوئی نہیں جو اسے کسی شفاخانے پہنچائے۔ ہاں‘ ایک کام لواحقین زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اس کی جائیداد ‘مال و دولت کا بٹوارہ ابھی سے کر رہے ہیں۔ ایک صاحب شہر والے مکان پر قبضہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ دوسرا رشتہ دار زرعی زمین پر حق جتا رہا ہے۔ ایک اور بینک بیلنس کے پیچھے پڑا ہے۔ یہ بیمار کون ہے؟ ایسے کئی بیمار پاکستانی ریاست کے دالان میں‘ بان کی ٹوٹی ہوئی‘ جھولتی
مزید پڑھیے


ہم جنگل میں رہ رہے ہیں!

هفته 27 اکتوبر 2018ء
محمد اظہارالحق
اگر شہر میں باقی ساری یونیورسٹیاں، باقی تمام تعلیمی ادارے ختم ہو جائیں تب بھی اس جامعہ میں اولاد کو داخل کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا۔ خدا کی پناہ! ایک شوہر اپنی منکوحہ کو لینے کے لیے یونیورسٹی جاتا ہے۔ وہاں ایک تنظیم کے ارکان، جو طالب علم ہیں، اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ اس کی بیوی چیختی ہے کہ یہ میرا شوہر ہے۔ بہت سے لوگ۔ بے حس لوگ۔ پاس کھڑے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں، کوئی مداخلت نہیں کرتا۔ اس تنظیم سے کوئی گلہ نہیں، مجرم کی منت سماجت کبھی نہیں کی جاتی، کوئی ہاتھ جوڑ کر مجرم سے یہ درخواست
مزید پڑھیے








اہم خبریں