تحریک انصاف کے اہم رہنماوں اور کارکنوں کی جانب سے پرنم آنکھوں کی ساتھ سیاست اور پارٹی کو خیر آباد کہنے پر متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں جبکہ حکمران اتحاد کا اس ساری صورتحال پر عمران خان کو تند و تیز جملوں اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہوئے بغلیں بجانا ان کی حالات پر کمزور گرفت کی غمازی کرتا ہے۔ کیسے؟ اس پر بات کرنے سے قبل یہ واضح ہو کہ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے مادر وطن کی صرف 75 سال پر محیط تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، اگر سیکھا ہوتا تو خواجہ سعد رفیق نہ کہتے کہ عمران خان نے لوگوں کے بچوں کو گمراہ کیا، اس کا ایسا حشر ہونا چاہیے جو کسی نے پہلے نہ دیکھا ہو۔محترمہ مریم نواز کو اس تناظر میں زیر بحث تو نہیں لایا جانا چاہیے کہ ان کا تجربہ نہیں تاہم انھوں نے عمران خان کو کہا ہے: گیم از اوور! اس سے آگے تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ متعدد مرتبہ عوام کی حمایت اور مخالفت کے برعکس ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی وغیرہ وغیرہ کیلئے ایسے ہی دعوے کیے گئے: گیم از اوور! کیا واقعی ایسا ہے؟ اور کیسے حکومت کی حالات حاضرہ پر سوچ کمزور گرفت کی غمازی کرتی ہے؟ ان دنوں چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں عائشہ گلالئی سمیت متعدد سیاستدان ق لیگ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں، چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری کی متعدد کوششیں بھی کارگر نہیں ہو سکیں، جن دو پراجیکٹس پر کارزارِ سیاست میں کام ہو رہا ہے، ان میں سے ایک چوہدری شجاعت حسین کی ق لیگ ہے، یہ جماعت 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ ہم خیال کے ناکام ڈھانچے کے بعد مسلم لیگ ق کے نام کے ساتھ 2002ء کے عام انتخابات کی کنگز پارٹی بن کر ابھری تھی۔ صدر پرویز مشرف نے ان انتخابات سے پہلے ریفرنڈم کے دوران اپنی عوامی رابط مہم میں پورے اعتماد سے اعلان کردیا تھا کہ انتخابات میں میرے حامی کامیاب ہونگے، جس کے بعد قائم ہونے والی قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ فضل الرحمان کی صورت میں ق لیگ اس وقت کی کنگز پارٹی کی حکومت کی شراکت دار بنی۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا وجود سب نے ابھرتے دیکھا، ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی وغیرہ متحرک رہیں، اس دوران ایم آر ڈی کی موومنٹ نے قومی سیاست کو کئی نئے نام دیئے یعنی کئی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو قومی سطح پر شناخت ملی، ان میں موجودہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان بھی شامل ہیں، اس دور میں کنگز پارٹی کا وجود اور دیگر سیاسی جماعتوں کا اقتدار کیلئے کردار قوم کے سامنے تو رہا ہی لیکن یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ حکومت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی سیاسی جد وجہد نے کئی سیاستدانوں کو عروج بخشا، ن لیگ کے بارے میں یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف ان کا محسن ہے، جس نے انھیں جمہوری سیاسی جماعت کی شناخت دی، حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کا کردار اس نقط پر پہنچ چکا ہے۔ آئندہ دنوں میں تحریک انصاف کے خلاف مزید کریک ڈاؤن، عمران خان کی گرفتاری یا تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی صورت میں پی ٹی آئی اور اس کے چئیرمین کا سیاسی قد اس نقط عروج پر پہنچ سکتا ہے، جہاں میدان سیاست میں تاحال موجود کوئی سیاسی جماعت نہیں پہنچ سکی۔ یاد رہے موجودہ حکمران عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف کاروائیاں کرتے ہوئے اسے اپنے لیے جتنی بڑی فتح قرار دیں گے، عمران خان اور پی ٹی آئی کو اتنا ہی زیادہ سیاسی فائدہ ہوگا البتہ انھیں مزید کئی سخت اور دشوار مراحل سے گزرنا ہوگا۔ موجودہ حکمران اس کے علاوہ بھی اپنی سوچ کے مطابق کئی اعتبار سے حالات سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کیلئے بلاول کو وزیر اعظم بنانا مقصود ہے جبکہ ن لیگ نواز شریف کی وطن واپسی اور وزارت عظمیٰ کی کرسی کے حصول کی صورت میں مخترمہ مریم نواز کیلئے راہ ہموار کرنے کے سہانے خواب دیکھ رہی ہے۔ فصل الرحمان کو کے پی کے چاہئے، لیکن کارزارِ سیاست میں جس دوسرے پراجیکٹ پر کام جاری ہے، وہ جہانگیر ترین کے معامالات سیاست میں ازسرنو متحرک ہونے کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ نئی سیاسی جماعت کو معرضِ وجود میں لانے کی جستجو میں فیلڈ ورک تیزی سے جاری ہے۔ عمران خان کیلئے ہیلی کاپٹر اور اے ٹی ایم مشین کے طعنے سننے والے جہانگیر ترین کی ن لیگ وغیرہ سے صلح تو عدم اعتماد کی تحریک سے بہت پہلے ہو چکی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اب کی بار وہ کس مقصد کیلئے تجوریوں کے منہ کھول دیں گے؟ جہانگیر ترین اگلے وزیراعظم پاکستان بننے کیلئے پوری طرح پر تولیں گے، ان کی چھتری تلے پرنم آنکھوں سے پی ٹی آئی کو خیر آباد کہنے والوں کا بسیرا قائم کروانے کا روایتی سیاسی کھیل کھیلا جائے گا۔ متعدد کے ضمیر جاگ سکتے ہیں، جیسے فیاض الحسن چوہان کا جاگا، کہنے والے تو کہتے ہیں کہ فیصلہ ہوچکا، بس چوہدری شجاعت اور جہانگیر ترین میں سے کسی ایک نے ہنر آزمائی کرنی ہے، ان دونوں پراجیکٹس کا باہمی ملاپ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جن لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ عمران خان کا طلسم توڑنے کیلئے کسی بڑی سیاسی قوت کی ضرورت ہوگی تو وہ شاید بھول چکے کہ شوکت عزیز اور میر ظفر اللہ جمالی مرحوم کو بھی وزیر اعظم بنایا گیا تھا، لہذا حکمرانوں کی سوچ موجودہ حالات کی غمازی نہیں کرتی۔ حکمران انتقام کی آگ میں اس حد تک اندھے ہوچکے ہیں کہ انھیں صرف یہ لگتا ہیکہ عمران خان کا راستہ روکنا ان کی فتح ہے مگر ایسا نہیں ہے میدان سیاست میں اور بھی بہت کچھ جاری ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیاں کر کے حکمران بغلیں بجا رہے ہیں جبکہ آئندہ کی کنگز پارٹی کی تیاری اور اسے کامران بنانے کے مراحل میں ان کے اپنے کئی سیاسی رہنما پنچھی بن کر اڑان بھر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے ساتھ کھڑی نہ ہوں، مفادات کو آئین پر ترجیح دیں تو ایسا ہی ہوتا ہے، ویسے حالات سے جنم لینے والا سوال یہ بھی ہے: کیا یہ تمام کی تمام جماعتیں سیاسی ہیں؟