الیکشن کی تاریخ جوں جوں نزدیک آ رہی ہے تحریک انصاف کی مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان مشکلات میں سے بیشتر کا تعلق نو مئی کے واقعات اور اس کے بعد تحریک انصاف کے قائد کے رویوں سے رہا ہے جس کے باعث وہ اور ان کی جماعت سیاسی تنہائی کا شکارہو چکی ہے۔مرکزی قیادت قید میں ہے اور اسے مقدمات کا سامنا ہے اور ذیلی قیادت انتشار اور بد نظمی کا شکار نظر آتی ہے۔اس پر مستزاد بعض انتظامی اور عدالتی فیصلوں نے بھی اس کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ابھی حال ہی میں سپریم کو رٹ کی تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسی کر رہے تھے ،پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں انٹرا پارٹی الیکشن میں بے قاعدگی کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف سے پارٹی کا انتخابی نشان ’’ بلا‘‘واپس لے لیا تھا ۔ اس سے پہلے پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے پارٹی کا انتخابی نشان بحال کر دیا تھا۔آٹھ فروری 2024 سے محض تین ہفتے قبل کئے جانے والے اس فیصلے نے ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کو ان انتخابات سے غیر متعلق کردیاہے ۔تحریک انصاف کو پہلے تو لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت تھی مگر اب اس فیصلے سے تو اس جماعت کے وکلا کے مطابق فیلڈ ہی نہیں رہی۔ سیاسی جماعت کے لئے انتخابی نشان کی بڑی ا ہمیت ہوتی ہے ۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیم کا تناسب کم ہے اور زیادہ تر آبادی دیہات میں رہائش رکھتی ہے وہاں الیکشن کے موقع پر یہ انتخابی نشا ن ہی ان کی پسند کی سیاسی جماعت کی پہچان کرانے میں مددگار ہوتا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان چھن جانے اب اس کے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں شریک ہیں جن کے انتخابی نشان الگ الگ ہیں ۔ جس سے ان امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی پھر یہ کہ ان کی کامیابی کے بعد ان کی سیاسی وابستگی متاثر ہونے کے واضح امکانات ہیں۔وہ مقررہ مدت میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں ۔ ا سی کے ساتھ ساتھ ایک جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوگئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مقدمات کی بھرمار اور مرکزی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث پارٹی میںانتشار واضح ہوچکا ہے۔ مختلف رہنما پارٹی قیادت کے دعوے دار ہیں۔ پارٹی کارکن حیران و پریشان ہیں وہ کسے رہنما سمجھیں۔ ایک مقبول عام سیاسی جماعت کا یوں بکھر جانا پاکستان کی سیاست کے لئے کسی طور بھی بہتر نہیں ہے۔ عدالتیں اور الیکشن کمیشن ریاستی ادارے ہیں ۔ان کی آئینی حیثیت مسلمہ ہے۔ ان دونوں اداروں کے غیر جانب دارانہ اور منصفانہ طرز عمل سے ہی ان کی ساکھ قائم ہوتی ہے ۔ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں سیاسی اور ریاستی اداروں کی کارکردگی کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی مگر انحطاط کی جو کیفیت آج ان اداروں کی ہو چکی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں الیکشن کمیشن کا طرز عمل کسی طور پر بھی متوازن ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نہیں رہا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے انتخابی نشان مختص کرنے تک کے تمام تر مراحل میں تحریک انصاف کی راہ میں مشکلات کھڑی کی گئیں۔انتخابی نشان کے معاملے میں انٹرا پارٹی الیکشن میں ہونے والی جن بے قاعدگیوں کو بنیاد بنایا گیا ان سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا ۔ پاکستان میں تمام ہی سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات ( جماعت اسلامی کے سوا ) محض ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ الیکشن میں اخراجات کی تفصیلات ہوں یا امیدواروں کے اثاثوں کاگوشوارہ ۔سب ہی کاغذی کارروائی کے سوا کچھ نہیں ۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور الیکشن کمیشن بھی اس سے بخوبی واقف ہے ۔الیکشن کمیشن ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود انہیں ، بالعموم ، نظر انداز کرتا رہاہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ضمن میں پارٹی کے داخلی انتخابات کا عمل نہ ہونے پر اسے محض جرمانہ کیا گیا او ر اسے اس کا انتخابی نشان لالٹین دے دیا گیا۔ اس طرح کا طرز عمل تحریک انصاف کے ساتھ بھی ر وا رکھے جانے کی ضرورت تھی مگر کسی مصلحت یا مخاصمت کے باعث ایسا نہیں کیاجاسکا۔ جو بھی سبب رہا ہو الیکشن کمیشن کا رویہ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ نہیں رہا۔ تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود تحریک انصاف اب بھی ایک بڑی اورمقبول عام سیاسی جماعت ہے ۔ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کو اس کی عوامی مقبولیت بھی پیش نظر رکھی جانی چاہیئے تھی ۔ الیکشن کمیشن کا یہ آئینی فریضہ ہے کہ وہ تمام ہی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی رویہ رکھے ۔دانائی اسی میں ہے۔ ایسے انتخابات جس میں ایک مقبول اور ملک گیر سیاسی جماعت کو باہر کردیا گیا ہو اسے عوامی پذیرائی کس طرح حاصل ہوگی ۔رائے عامہ کی مجموعی کیفیت کے برعکس انتخابی نتائج کسی طور بھی سیاسی استحکام کا باعث نہیں ہو پائینگے۔ انتخابات کا عمل تب ہی سیاسی استحکام کا سبب بنتا ہے جب :عوام اپنے نمائندوں کے انتخاب میں کسی الجھن اور تذبذب کا شکار نہ ہوں ۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی کے ساتھ عوام کے ساتھ رابطہ کی سہولت حاصل ہو ۔ انتخابی نتائج شفاف طریقے سے مرتب کئے گئے ہوں۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ معیشت اور داخلی سلامتی کو درپیش مسائل کے لئے ایک ایسی سیاسی حکومت کا قیام اولین ترجیح ہے جس کی پشت پر عوامی حمایت ہو اور جسے اپنی بقا کا کوئی خطرہ نہ ہو ۔غیر سیاسی اور غیر جمہوری عمل کی کاشت سے سیاسی استحکام کا ثمر کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ریاست کسی سیاسی عدم استحکام کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ کاش تمام اسٹیک ہولڈر ز اس بات کو سمجھ سکیں۔