طاقت اور اصول پنجہ آزما ہیں، انجام گلستاں کیا ہوگا؟ قوم کو اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا وگرنہ صدیوں کی شرمندہ کر دینے والی تاریخ اور غلامی سے نجات ممکن نہیں۔ اقتدار کی چاہ مسلمانوں کا اصل المیہ رہا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی حکمرانی اس کی سیاہ آئینہ دار ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک اقتدار کے خوگروں نے بھی نئے روپ میں پرانے بہروپ نہ چھوڑے، ساری زندگی نظریہ ضرورت کو کوسنے والے نظریہ ضرورت کے متلاشی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو پارلیمنٹ میں طلب کرنے کا مطالبہ پیش کردیا گیا، شاہد خاقان عباسی جو کچھ عرصہ سے "وجہ وقار" تلاش کر بیٹھے تھے، کیا ان کو ایسا مطالبہ اور وہ بھی ایسے وقت میں کرنا زیب دیتا تھا؟ دراصل ذات کی برتری کا جنون جان نہیں چھوڑتا، اجتماعیت اور ملک و ملت کی ترقی کے فلسفوں کے درپردہ بھی ذاتی پزیرائی کا ذوق ہمارا المیہ بن چکا ہے۔ چوہدراہٹ کی طلب نے تہذیب و تمدن کے بعد اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا اور اب کی بار اس آئین کے در پے ہے، جس سے چھیڑ چھاڑ ہر طالع آزما کو آخرکار بھاری پڑی اور پھر وہی چہرے اقتدار کی راہ داریوں کا مقدر بنے جنہوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا لیکن انھوں نے اس مرتبہ خود ہی حدود کو عبور کرنے کا کھیل شروع کر رکھا ہے۔ توہین پارلیمنٹ اور توہین الیکشن کمیشن کا جواز تراش کر کیسے کیسے نظریہ ضرورت کے بچے بانکے پیدا کرنے کی جستجو کی گئی اور تاحال ایسے نعروں کی گونج جاری ہے۔ تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے فلور آف دی ہاؤس پر اتراتے ہوئے کہا: رجسڑار سپریم کورٹ کو طلب کر لیا گیا ہے۔ اب کیا کہیں! جب راجہ ریاض جیسے تاریخ کے مضبوط ترین اپوزیشن لیڈر فرماتے ہیں: اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے اختلاف رائے کرنے والے کو لوٹا کہا جاتا ہے، بلا تمہید عرض ہے: جناب آپ نے اختلاف رائے کو سازش سے شرمندہ کر دیا۔"اتنی نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت ۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ". وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی نے صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے سے روکنے کیلئے الیکشن ایکٹ کی شق 57 اور 58 میں ترمیم کی منظوری دیدی، جس کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کیلئے صدر مملکت سے مشاورت کرنے کا پابند نہیں ہوگا، اس ترمیم کو آئندہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کی تیاری ہے۔ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ بھی ہو تو قانون سازی کو آئینی ترمیم کے متوازی قرار دینے کی ہٹ دھرمی ہوگی، اگر عدالت میں کیس چل نکلا تو پارلیمنٹ سے عدالت پر چڑھائی کر دی جائیگی، یہ کہنے اور سننے میں کتنا آسان کام ہے مگر آئینی، جمہوری اور پارلیمانی روایات کو شرمندہ کر دینے والا عمل ہے، جس کو ریت کا محل تعمیر کرنے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ضد اور آنا کی حدود متعین کیے بغیر حالیہ اقدامات کے ذریعے ہر شے پرکھچے اڑائے جارہے ہیں۔ طاقت کے اندھے استعمال کے بعد قانون قدرت ہے کہ چاہے بادشاہ ہو یا فقیر اپنے جال میں خود ہی پھنس جایا کرتا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی کیفیت زیادہ مختلف نہیں۔ عمران خان کے سوا انھیں کچھ نظر نہیں آتا، فرائض کے لفظ تک کو بھول چکے ہیں، ہر وقت ایک ہی بین بجاتے چلے آرہے ہیں، کبھی عدت میں شادی تو کبھی ٹیران وائٹ! یہ حکمران ہیں یا سوتن؟ لندن میں بیٹھے نواز شریف کہہ رہے ہیں: کسی عدالتی بینچ کو نہیں مانتے، صرف چار تین والے بینچ کو مانتے ہیں، اب پاکستان کی عدلیہ کی تصحیک کا یہ کیسا طریقہ ہے کہ لندن سے یورپ کی سیر ہوسکتی ہے، خانہ خدا میں عمرہ کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے، مادر وطن واپس نہیں آیا جاسکتا بلکہ علاج کے دوران عدلیہ پر حملے ہوسکتے ہیں۔ کیا خوب انداز سیاست ہے، ہمارے لیڈروں کے! وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ان دنوں جس طرح کی گفتگو عدلیہ اور ججز کے بارے میں کر رہے ہیں، ان کا دفاع کیونکر کوئی کرے، عدالتی اصلاحات ہر دور میں ضروری ہیں۔ "مگر ہم قانون و آئین سے بالاتر ہیں" ایسا طرز حکمرانی عوام کو قبول نہیں، عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے کی بجائے عدلیہ پر چڑھائی کی جائے، عدلیہ اور مقننہ کا موازنہ شروع کردیا جائے، ذاتی چاہ پر عدالتی اختیارات پر قانون سازی کو آئینی ترمیم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور پھر کہا جائے کہ ہم الیکشن سے بھی نہیں بھاگ رہے لیکن عمران خان لاڈلے کی خواہش پر سر خم تسلیم نہیں کرسکتے۔ حیرت ہے پارلمینٹ میں بڑھکیں اور عدالت میں یس سر! الیکشن کمیشن ملک بھر میں اکٹھے انتخابات کیلئے بھی سپریم کورٹ پہنچ گیا، دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود نگران حکومت کی مینڈیٹ کیخلاف گرفتاریوں کا نوٹس لیا جائے، ویسے حکومت نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ایسے اقدامات سے آخر حاصل کیا ہو رہا ہے؟ پرویز الٰہی کے گھر بکتر بند گاڑی سے داخلی گیٹ توڑ کر بدترین سرچ آپریشن کے بعد ان پر ہی دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا، عدالت سے انھیں دوبارہ عبوری ضمانت حاصل ہوگئی اور ڈی جی اینٹی کرپشن معذرت بھی کر چکے ہیں، ایسے بھونڈے مقدمات پر عبوری ضمانت کو جواز بنا کر ریلیف اور لاڈلے کی بے تکی بڑھکیں لگائی جاتی ہیں حالانکہ ہر مقدمے میں ہر کسی کو قانون عبوری ضمانت کا حق دیتا ہے، دراصل حکمران ہاتھ باندھ کر مارنا چاہتے ہیں لیکن ٹکر کا جرات کے ساتھ جواب ان کے مزاج گرامی پر گراں گزر رہا ہے، اب عمران خان ڈاکٹرز کے مشورے پر ویل چئیر پر آئیں ہیں تو الگ تماشے! ذرا نواز شریف سے پوچھیں بیماریمیں کتنا انجوائے کر رہے ہیں، پی ڈی ایم جماعتوں کی اکثریت تو کرپشن کیسز پر رہتی ہی بیمار تھی لیکن نیب قوانین میں ترامیم ان کیلئے آب حیات ثابت ہوئی ہے، نہ کمر درد نہ کچھ اور! بات فقط اتنی ہے: طاقت اور اصول پنجہ آزما ہیں، انجام گلستاں کیا ہوگا؟ باقی کان سیدھے پکڑیں یا ہاتھ گھوما پھیرا کر، حقیقت چھپ نہیں سکتی۔