مایوسی کفر ہے مگر اس کفر سے بچنے کے لیے کوئی امید کی کرن بھی ضروری ہے اگر کہیں کچھ اس ملک کی حقیقی فکر کرنے والے صاحبان اختیار سوچ بچار کر رہے ہیں تو سامنے آئیں کچھ تو بتائیں کہ اب اس ملک کی سمت کیا ہوگی یا صرف تبادلوں تقرریوں آنے جانے والوں کی پیشرفت سے ہی گمان کیا جائے گا کہ فلاں مسیحا آئے گا اور ملک کی تقدیر بدل جائے گی ایسے مسیحا تو کئی بار آچکے۔ مصنوعی ہجرت یا جلا وطنی کبھی بھی ہمارے مقدر نہ بدل سکی ۔انڈیا کا ہمارے ساتھ تقابل بنتا ہی نہیں بلکہ اب پوری دنیا میں کسی کا بھی کسی سے موازنہ ہو ہی نہیں رہا۔ دنیا صرف اب اپنے معاشی مفادات کو مدنظر رکھ رہی ہے جی 20 دراصل اجتماع تاجراں تھا جیسے ہمارے ہاں تاجروں کی یونین ہوتی ہے یا وہ اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اب ایسا کرنے سے کوئی کسی کو نہیں روک رہا۔ چائنہ نے افغانستان میں مستقل مندوب نامزد کر دیا ہے انڈیا کے پاس کیا ہے بہت بڑی آبادی ہے اسی حساب سے ضروریات ہیں بہت بڑی منڈی ہے۔ چائنہ افغانستان میں کیا لینے گیا ہے کاروبار صرف کاروبار ہمارے پاس وہ کیا لینے آیا یا دینے آیا صرف کاروبار جذباتی تعلق کا زمانہ گیا پتہ نہیں کیوں ہمیں سرمایہ دار زہر لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ پھیلایا گیا کہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے کیا کوئی ساتھ لے کر گیا ہے؟ ہر چیز عارضی ہے فنا ہو جائے گی اگر کوئی دن رات پیسہ کمانے میں لگا ہوا ہے تو اسے مشین تصور کرتے ہیں اگر وہ اس دنیا سے چلا گیا تو عجیب و غریب قسم کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ تین سو سال قبل ہندو بنیا کاروبار ہی تو کرتا تھا ہمارے ہاں انڈسٹری کی تباہی سرمایہ دار سے نفرت کا نتیجہ بھی ہے۔ میرے اپنے شہر بوریوالہ میں سیٹھ داؤد احمد نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کے نام سے ایشیا کی دوسری بڑی مل بنائی جو شہر کے وسط میں بہت بڑے رقبے پر آج بھی موجود ہے مگر بدقسمتی سے تالے لگے ہوئے ہیں جب بھی وہاں سے گزرتا ہوں اسکی ویرانی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا یونین بازی کی نظر ہو گئی سیٹھ داؤد بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر افسوس حکومتی سطح پر ان کی سرپرستی ہی نہ کی گئی۔ 10 ہزار لوگ اس مل میں کام نہیں کرتے تھے تنخواہ لیتے تھے میں نے اپنی انکھوں سے دیکھا سفید کاٹن اور بوسکی پہنے لوگوں کا گروہ بغیر کام کے ہر وقت پوری مل کا سارے شہر کا چکر لگاتا ہر جگہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ آخر کب تک یہ سب کچھ چلتا رہتا ایک تو قیام پاکستان کے وقت سے دولت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور دوسرا اگر کسی نے یہاں کچھ سرمایہ کاری کر دی یا کرنا چاہی تو سازشی عناصر کے ساتھ ملا کر ایسی مہم چلائی گئی کہ وہ یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر دنیا کی منڈیوں کی طرف چلا گیا اور آج ہم انہی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتیں کر رہے ہیں کہ خدارا واپس آجاؤ۔ کیسے واپس آئیں کیا ہم بدل چکے ہیں؟ معذرت بنیادی طور پر ہم نواب طبیعت لوگ ہیں جنہیں یہ پڑھایا گیا ہے کہ ایک نہ ایک روز پوری دنیا کی سرداری ہمارے پاس ہی آنی ہے۔ دنیا بھاگ لے جہاں تک بھاگنا ہے۔ بھلے کوئی آدمی محنت کر کے ہی ترقی کرے ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ اس نے دو نمبر طریقے سے کی ہے۔ ٹیکس چوری ہم بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں وقت بچانے کے لیے رشوت دینا جرم سمجھتے ہی نہیں اور مشہور فقرہ کہتے ہیں کہ ہماری یہ حالت ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ گناہوں کی سزا ہے تو پھر ہم ثانوی سزا کی زد میں ہیں یا اجتماعی اصل میں ہم اجتماعی فریب کی زد میں ہیں جدت سے ہمیں نفرت ہے اس لیے ہم ترقی کی طرف جانا ہی نہیں چاہتے چونکہ ہماری نزدیک ترقی کی طرف جانے والا ہر راستہ مشکوک اور ناجائز ہے ہمیں بھول پن پسند ہے۔ سمجھداری کو ہم چالاکی یا عیاری سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم 25 اور 30 سال پہلے زمانے کو آج بھی بہترین سمجھتے ہیں۔ ہمیں 1985 میں بتایا گیا تھا کہ اس ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو جائے گا ہم نے کیا توجہ دی کیا ہماری موجودہ بدترین حالت کا ذمہ دار انرجی کا بحران نہیں۔ ہمارے ادارے کرپشن کا گڑھ کیوں ہیں اس نفسا نفسی نے ہر کسی کو تباہ کر کے رکھ دیا اب اگر کوئی کہیں سوچ رہا ہے تو اسے سامنے آنا چاہیے۔ قوم کو بتانا چاہیے عارضی ہم ہیں یہ ملک نہیں ہر کسی کو ترقی کا حق حاصل ہے۔ دنیا عارضی ہے اسکا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ آگے بڑھنے کو ہی کفر بنا دیا جائے۔ ہم پیچھے کیوں رہ گئے اس کی اصل محرکات بتائے جائیں ہماری ضد نے ہمارے رویوں نے ہمیں دنیا میں کیوں تنہا کر دیا اب بھی اگر کوئی آئینہ نہیں دیکھ رہا تو اسے دکھایا جائے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے تلخ ضرور ہیں مگر ہمیں آگے بڑھنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ دنیا ہمارے ساتھ چلے گی اگر ہم دنیا کو یقین دلائیں کہ ہم بہت بدل چکے ہیں پہلے ہمیں اندرونی صفائی کر نی پڑے گی اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا پرامن صاف ستھرے ماڈل سٹی بنانے ہونگے کاروبار کے جدید ترین ذرائع پیدا کرنے ہونگے۔ ہمیں الف ب سے شروع ہونا ہوگا اپنے بوسیدہ نصاب کو بدلنا ہوگا ہر قسم کی رکاوٹ عبور کرنی ہوگی اور سخت ترین پیغام دینا ہوگا کہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ ناقابل برداشت ہے ہمارے پاس دنیا کے بہترین سیاحتی مقام ہیں بیشتر ممالک صرف سیاحت کے ذریعے ہی ترقی کرگئے ہمارے پاس تو ہر شعبے میں مواقع موجود ہیں بلکل دنیا ہمارے ساتھ چلے گی پہلے ہمیں دنیا کیساتھ چلنا ہوگا اگر کوئی کہیں واقعی سوچ رہا ہے تو سامنے آئے سب کچھ بتائے بلکہ دکھائے کہ کس کس نے کیسے اس ملک کو یہاں تک پہنچایا سبھی کا بتائے۔