جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں لیکن پسپائی بھی مسائل کا حل نہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ ملکوں پر چڑھائی صرف امریکا ہی کی خواہش کیوں رہتی ہے ؟ ویٹو کا نا معقول ’’ حق ‘‘ رکھنے والے باقی ممالک ہوس ملک گیری کا شکار کیوں نہیں ہوتے۔ اس دنیا کے امن کا اصل ذمہ دارصرف امریکا ہی کیوں بن جاتا ہے۔ ستمبر ۱۸۹۸ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر باسلے میں بزرگ یہودی دانشوروں نے عالمی یہودی ریاست کا منصوبہ پیش کیاتھا۔ ان کاخیال تھا کہ ایک سو برس کے بعدو ہ پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے ایک عالمگیر ریاست قائم کر لیں گے۔ یہودیوں کے اس منصوبے کو بعد ازاں ایک کتابی شکل میں شائع کیاگیا ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اس یہودی منصوبے کا حصہ قرار پائیں۔ اس وقت امریکا اور اس کے اتحادی جس غرور کا شکار ہیں اور جس قدر قوت کے ساتھ فلسطین کو خون آشام پنجوں کی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں یہ اسی عالمی جنگ کا حصہ ہیں جس کا خاکہ بزرگ یہودیوں نے تیار کیا تھا۔اس میں کوئی شک باقی نہیں کہ عالم اسلام کے تمام تر وسائل پر قبضے کے لیے بر پا کی گئی جنگیں ایک سکرپٹ کے تحت لڑی جا رہی ہے ۔ ان جنگوںمیں کچھ اپنے اور کچھ غیر شعوری اور لا شعوری طور پر استعمال ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ یہودیوں کی اس سوچ اور فکر کے پس منظر میں ہی شر کی قوت کارفرما ہے جس کے سامنے کا ہدف مسلمانوں کو تاراج کر کے ان کے وسائل کو قابو کرنا ہے ۔ پوری دنیا کے مسلم ممالک میں پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مدینہ منورہ کے بعد پہلی اسلامی نظریاتی مملکت قرار پائی ہے ،اسرائیل کا قیام ہی دراصل پاکستان جیسی نظریاتی ریاست کے مقبل عمل میں لا کر عالم اسلام کے سینے میں خنجر گھونپا گیا تھا۔ پاکستان پوری امت کے لیے فی الواقعی حوصلے ‘ جذبے اور تحفظ کا نشان رہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور ا س کے حواری سب سے پہلے اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور حیلے بہانوں سے اس کی قوت کو پامال کرنے کے درپے ہیں ۔ ہر شر سے خیر کے کچھ پہلو نکل آتے ہیں جس زمانے میں روس افغانستان کو کچل رہا تھا اور گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے وہ پاکستان کے درپے آزار تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی میں تیزی پیدا کرنے کا موقع فراہم کر دیا ۔ یہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان نے اپنے دفاع کو مضبوط کر لیا ۔ امریکا افغانستان اور عراق میں معدنی وسائل خاص طور پر تیل اور گیس کی تلاش میں تھا اور اس کی اب بھی نظر وہیں ہے ۔ بظاہریوں لگتا تھا کہ وہ ہر چیز کو ملیا میٹ کر دے گا لیکن جس افغانستان کو اس نے برائی کا گڑھ قرار دیا تھا ‘ وہ اس کے لیے دلدل ثابت ہوا ۔ امریکا کو افغانستان یا عراق جانے سے ا س لیے روکا نہیں جا سکتا تھا کہ یہودی بزرگوں کے طے کردہ خاکے کے عین مطابق تھا۔ ان دانشوروں کو اس بات کا ادراک آج سے سو سال قبل نہیں ہو سکا کہ امریکا اس معرکے میں اپنی معیشت کو برباد کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکی معیشت زوال آشنا ہے اور امریکا دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے ۔مسلم ممالک کے وسائل پر قبضے کے شوق میں امریکا سالانہ تین سو ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر رہا ہے ۔یہ اخراجات امریکا کے ترقیاتی اخراجات کے علاوہ ہیں ۔ تین سو ارب ڈالرز کا بیشتر حصہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے ۔ یہ ایک خوف ناک عمل ہے جس میں ۱۹۶۰ء سے آج تک امریکی بجٹ خسارے میں جا رہا ہے اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہر سال سینکڑوں ارب ڈالرز بنکوں سے قرض لیا جا رہا ہے ۔یورو جس طرح تیزی کے ساتھ اوپر جا رہا ہے اس سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ ڈالر بھی روسی روبل کی طرح بے قیمت ہو جائے گا ۔ تاریخ کے اوراق میں بہت سی عبرتیں سوئی پڑی ہیںِ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کی تباہی کا سوچنے والے تباہ ہو گئے ۔ ملکوں پر چڑھائی کی تگ و تاز کے دو نتائج امریکیوں کے لیے نوشتہ دیوار ہیں۔ ایک یہ کہ اس عمل میں خود امریکی معیشت برباد ہو جائے گی اور دوسرا اسلامی دنیا میں بیداری کی ایک ایسی لہر ابھر چکی ہے جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا ۔شر کی تمام قوتیں خیر کی قوتوں کو کچلتے کچلتے خود بری طرح پامال ہو رہی ہیں۔ایک تاثر عام ہے کہ امریکا مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کے ساتھ ساتھ ایک عالمی جنگ چھیڑ چکا ہے ۔ اس کا فائدہ با لآخر یہ ہوگا کہ خود امریکا کے اندر سے احتجاج کی لہر اٹھے گی ۔ امریکی قوم حکمرانوں کی ان پالیسیوں سے تنگ آ کر سڑکوں پر نکلے گی یہاں تک کہ امریکا واپسی کے محفوظ راستے تلاش کرتے کرتے ایک غیر محفوظ مستقبل میں چلا جائے گا ۔یہ وہ پیش منظر ہے جس کو سمجھنے کے لیے افلاطونی دماغ کی ضرورت نہیں ‘ یہ تاریخ کا عمل ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ یہ فطرت کی وہ راہ گزر ہے جہاں سے گزرتے ہر مغرور کا انجام یہی ہوتا ہے ۔ پاکستان کے پڑوس میںکھڑا مغرور بھی امریکی زبان بول رہا ‘ وقت اس کی رعونت پر بھی خاک ڈالنے کا منتظر ہے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات اگر چہ خوش کن نہیں ‘ بظاہر انارکی ہے اور اس کی اصل وجہ اس کے معاملات میں امریکا کی بے جا مداخلت اور اس خطے میں موجودگی ہے ۔ صاف نظر آتا ہے کہ وہ اس وقت طاقت کے نشے میں ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ قومیں سر بلند ہوئیں جنہوں نے تمام تر حالات کا مقابلہ جوان مردی سے کیا ۔ اندرونی اختلافات کے باوجود قومی مفادات کو ترجیح دی ۔ زندگی اور موت کی اس کشمکش میںپاکستان کے عوام کواس بات کا ادراک کرلینا چاہیے کہ امریکا اور اس کے حواری پاکستان کی عالم اسلام میں نمایاں ترین پوزیشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سارے عمل میں انہیں کچھ دیسی پٹھو درکا ر ہیں ۔ قوم آنکھیں کھلی رکھے اور ان کالی بھیڑوں سے چھٹکارے کے ساتھ ساتھ اتحاد کا دامن تھام لے تو اس خوف ناک انارکی کی کوکھ سے ایک پر امن انقلاب پھوٹنے کو بے تاب ہے ۔ بظاہر مایوسی اور اضطراب ہے ۔ کشمکش کے دورمیں ہی استقامت دکھانے والے انقلاب کی طرف بڑھتے ہیں ۔ خوف کی اس فضا میں ایک لمبی سانس لے کر نئے عزم کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انسان اپنا منصوبہ رکھتا ہے لیکن کامیابی اسی منصوبے کو ملتی ہے جو خیر کی قوتوں کے مالک اور رب کا ہوتا ہے۔ جو انسانوں کے غرور تو خاک میں ملاتا ہی ہے ملکوں کے گھمنڈ بھی خاک میں ملا دیتا ہے ۔