ملک کا میڈیا اور سیاسی حلقے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں سودے بازی اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے حکومتیں بنانے کا سلسلہ اب ترک کیا جانا چاہیے۔ سودے بازی سے بنائی گئی حکومتیںنہ تو مسائل حل کر سکتی ہیں اور نہ آزادی سے فیصلہ کر سکتی ہیں۔حالیہ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جنرل ضیاء الحق نے 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کے بعد بھی مارشل لا اٹھانے کے لئے شرائط عائد کر دی تھیں ۔ اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلی پر دباؤ ڈال کر آرٹیکل 58 (2) بی آئین میں شامل کرایا گیا جس سے پارلیمانی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ صدر کے پاس ایسے اختیار ات آ گئے جن کے ذریعے وہ کسی بھی وقت اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کرا سکتا تھا ۔58(2) بی کے تحت جنرل ضیاء نے پہلا وار اپنے چنے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت پر کیا ۔جونیجو نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ نہیں چل سکتے۔ جونیجو کے اس خطاب کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ خطاب نشر ھو گیا اس وجہ سے ضیاء جونیجو کشمکش شروع ہو گئی۔ محمد خان جونیجو جمہوری ذہن کے آدمی تھے۔ وہ جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے افغانستان سے سوویت فوج کے نکلنے کے بعد پیپلز پارٹی سمیت ساری سیاسی جماعتوں کا اجلاس راولپنڈی میں بلایا اور ضیاء الحق کی مخالفت کے باوجود جنیوا سمجھوتے پر دستخط کرنے کے حق میں اتفاق رائے حاصل کر لیا۔ جنرل ضیاء کی دھمکیوں کے باوجود جونیجو نے جنیوا سمجھوتے پر دستخط کر دیے۔ ضیاء الحق اور جونیجو کھل کر سامنے آ گئے ۔اس کے کچھ عرصہ بعد جونیجو نے ضیاء کے نامزد کردہ وزراء صاحب زادہ یعقوب خان ' خاقان عباسی اور ڈاکٹر محبوب الحق کو کابینہ سے فارغ کر دیا۔ ضیاء جونیجو کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ وزیراعظم جونیجو جنوبی کوریا کے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچے اور انہوں نے اپنے دورے کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کی ۔ اس پریس کانفرنس کے فوری بعد صحافیوں کو بتایا گیا کہ جنرل ضیاء پریس کانفرنس کریں گے ۔ کچھ دیر بعد جنرل ضیاء الحق نے آرمی ھاوس میں ایک پریس کانفرنس میں اپنی شیرو انی کی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اعلان کیا کہ انہوں نے 58(2) کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔29 مئی 1988 کو؟جونیجو حکومت کو فارغ کر دیا گیا اور نوے دن میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیاء کو دوبارہ انتخاب کرانے کا موقع نہ ملا۔ وہ طیارے کے حادثے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔1988 کے انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔بے نظیر بھٹو کی پی پی پی کو اقتدار مل گیا ۔لیکن انہیں حکومت لینے کے لیے سودے بازی کرنا پڑی۔اس خاکسار کو یاد ہے کہ جب بے نظیر ایوان صدر میں صدر غلام اسحاق کو ملنے کے بعد باہر نکلیں تو انہوں نے اخبار نویسوں سے بات نہیں کی ۔ وھ سیدھا راولپنڈی میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے گھر پہنچ گئیں۔ جنرل بیگ کے گھر بے نظیر نے ان کے کچن میں آلو کے کٹلس بنانے اور جنرل بیگ کی فیملی کے ساتھ انجوائے کیا۔اس ملاقات میں بے نظیر کو گائڈ لائنز دی گئیں کہ وہ کیسے ملک چلائیں گی۔ صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ بنایا گیا ۔ وی اے جعفری سابق گورنر سٹیٹ بنک کو وزیر خزانہ بنایا گیا ۔ پنجاب نواز شریف کو دے دیا گیا۔بینظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا گیا ۔ ان کی حکومت اسلام آباد تک محدود کر دی گئی ۔ بالآخربینظیر حکومت کو پانچ اگست 1990 کو 58(2) بی کے تحت فارغ کر دیا گیا۔تین ماہ بعد انتخابات کرائے گئے ۔ بی بی کو قومی اسمبلی میں چالیس نشستوں تک محدود کر دیا گیا ۔بینطیر نے ان انتخابات کو چوری شدہ انتخابات قرار دیا اور نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر تھے لیکن ان کی حکومت بھی 1990 میں کرپشن کے الزامات پر بر طرف کر دی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت کو بحال بھی کیا لیکن ان کو اور صدر اسحاق خان کو استعفے دے کر جانا پڑا۔ 1993 میںبینظیر کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا۔بی بی کو اکثر یت مل گئی ۔ انھوں نے اپنے جیالے فاروق لغاری کو صدر بنوا دیا ۔بینظیر نے دعویٰ کیا کہ اب اگلے الیکشن میں بھی وہ کامیاب ہوں گی ۔ ان کے شوہر آصف زرداری پر اس دور میں کرپشن کے سنگین الزامات لگے۔ بینظیرحکومت 1993 میں گھر بھیج دی گئی۔نواز شریف کو پھر دو تہائی اکثر یت سے اقتدار میں لایا گیا ۔پھر ان پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے اور آرمی چیف کو قتل کرنے کا الزام لگا۔ ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ نواز شریف فوج سے ڈیل کر کے دس سال کے لئے سعودی عرب چلے گئے۔ بے نظیر بھی دوبئی چلی گئیں ۔ 2007 میں وہ برطانیہ اور کچھ دوسرے ملکوں کے ذریعے ڈیل کر کے واپس آئیں۔دسمبر 2007 میں راولپنڈی میں قتل ہو گئیں۔ 2013 میں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ آصف زرداری نے 2013؟کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا۔ حسب روایت نواز شریف کی فوج کے ساتھ ان بن شروع ہو گئی ۔ نواز حکومت لڑکھڑانے لگی۔تب عمران خان کو ہیرو بنا کر لایا گیا۔انھیں مسیحا سمجھا گیا۔مسلم لیگ نواز اور پی پی کے لئے آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔احتساب شروع ہوا لیکن یہ مذاق بنا دیا گیا۔اپریل 2022 کو نواز لیگ ' پی پی اور چند دوسری جماعتوں کے ذریعے عمران کو نکال باہر کیا گیا۔مسیحا اب جیل میں قید ہے۔ ن لیگ اب پھر اقتدار لینے کے لیے پر تول رہی ہے۔ نواز شریف غصے سے سرخ ہو رہے تھے کہ وہ ان ججوں اور جرنیلوں کونہیں چھوڑیں گے جنھوں نے ان کے خلاف سازش کی اور انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا۔لیکن ان کے چھوٹے بھائی اور کچھ دوسرے ساتھیوں نے سمجھا یا ہے کہ میاں صاحب ھتھ ھو لا رکھو ۔ آپ نے جنرل پرویز مشرف کا احتساب شروع کیا تھا اور چلتی جکومت گنوا دی۔ سعودیوں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پنگا نہ لیں۔ ایک بیان کے بعداب میاں صاحب شاید سمجھ گئے ہیں۔