اک المناک داستان ہے، جسے کوئی زیادہ لکھتا ہے نہ بولتا ہے، پڑھنے اور سننے والوں کا بھی قحط الرجال ہے۔عام آدمی کو کوئی موضوع سخن کیوں بنائے۔ محسن انسانیت جناب رسالت مآب حضرت محمد ﷺنے فرمایا تھا کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہے، میری امت کا فتنہ مال ہوگا، لہذا دولت کی کشکش نے سب کو بالادست طبقات کے باہمی اختلافات میں سے ملک و ملت کی خیر خواہی تلاش کرنے پر مجبور کردیا۔ کسی نے سہی معنوں میں آج تک اس امر کی کھوج لگانے کی کوشش نہیں کی کہ ان بالادست طبقات کے مفادات کیا ہیں؟ اگر کسی سر پھرے نے جسارت کی تو اس پر کسی نے توجہ دی نہ کان دھرے۔ دراصل ہم ایک احساس محرومی کے شکار معاشرے کے باسی ہیں۔ جہاں دولت سے لدے پڑے افراد اور گروہوں کو اپنا ہیرو مان لیا جاتا ہے، ان کے کردار اور اقوال کے پیچھے چھپے مفادات کو نقصان باہمی کے باوجود نظر انداز کر دیا جاتا ہے، سو اقتدار کی جنگ میں مفادات کا بت تراشنے والوں کی چاندی رہتی ہے، 75 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور شاید آگے بھی ہوتا رہے، لندن میں مقیم میرے دوست سے مادر وطن کے حالیہ بحرانی حالات پر گفت و شنید ہو رہی تھی، طویل گفتگو کا حاصل اس نے برطانیہ اور پاکستان کے موازنے میں یہ نکالا کہ شاید ہمیں جمہوریت، جمہوری اقدار اور عوام کو جمہوریت کا نگہبان بنانے میں ابھی ایک، دو یا تین صدیاں مزید درکار ہیں، اس کے موقف کے مطابق پاکستان کو قائم ہوئے ابھی 75 سال ہوئے ہیں جبکہ سفر طویل ہے، عوام کی جذبات کے برعکس حقیقی شعوری تربیت، عزم مصمم اور مشق مسلسل کے کئی مراحل باقی ہیں، یہ نکات سن کر میں خاموش سا ہوگیا کیونکہ ہمارا تاحال سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ان کرداروں کو مورد الزام تک نہیں ٹھرا سکتے جنہوں نے بحرانوں کے بیج بوئے اور اسکی کھیتی کاشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس وطن عزیز میں غریب آدمی ایک وقت کی روٹی کو ترس رہا ہو، ملک قرضوں کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبا ہو اور اس پر نہ کوئی بات کرنا پسند کرے اور نہ اصلاحات کے دروازے کو کھولنے کی جسارت! قیام پاکستان کیلئے تحریک پاکستان میں مسلمانان برصغیر نے اپنا تن، من اور دھن سب کچھ قربان کر ڈالا، دس لاکھ سے زائد مرد، خواتین، بزرگوں، بچوں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور وطن عزیز کی سرحدوں کے دائمی محافظ بن گئے۔ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی، پھر جا کر اس روئے زمین پر اس عظیم مملکت خداد پاکستان کا حصول یقنی بنایا جاسکا، قوم نے بانی پاکستان سے اپنا عہد و پیماں پورا کیا، قیام پاکستان کے بعد وڈیروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، بیوروکریسی اور ہر طرح کے بالادست طبقات نے عوام کے ساتھ کیا کیا؟ قائد اعظم محمد علی جناح نے دکھی دل سے اعتراف کیا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں، قائد اعظم کی رحلت کے بعد سے ملک محلاتی سازشوں کی صورت میں تماشا بنا ہوا ہے، اقتدار کے خوگروں نے اپنے پیٹ، تجوریاں، بزنس ایمپائر بنا لیے، غریب اور متوسط طبقہ زندگی کی بقا کے گھن چکر سے باہر نہیں نکل سکا بلکہ اسے نکلنے نہیں دیا گیا، ایک طویل مدت دائیں اور بائیں بازو کے تاثرات کے ذریعے قوم کے جذبات سے کھیلا گیا، کیا اس کھیل کے اہم کھلاڑیوں میں سے کوئی اپنے اپنے پیش کردہ نظریات سے مخلص تھا؟ جواب ہے: نہیں۔ کیونکہ اگر مخلص ہوتا تو آج خلق خدا کی ایسی ابتر حالت زار نہ ہوتی۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں تو ٹریڈ یونین کے نام پر بیوپار کیے گئے، مزدور تنظیموں کے کرتا دھرتا اشرافیہ کی صف میں شامل ہونے لگے اور آج تک یہ بدبو دار کھیل جاری ہے، ان دنوں ہی دیکھ لیجئے؛ عام آدمی کی سسکیاں کوئی سننے والا نہیں، حکومت کی آج بھی کوئی ریلیف پالیسی نکلتی ہے تو اشرافیہ کیلئے جبکہ غریب کو مفت آٹے کی تقسیم کے نام پر 20 ارب روپے کی کرپشن کا زہر آلود ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ کی فوج ظفر موج عام آدمی کے زخموں پر نمک نہیں تیزاب پاشی کرتی ہے، وزیر اعظم ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کی تقریب میں شریک ہونے لندن بیٹھے ہیں، وزیر خارجہ جنہیں وزیر سیر و سیاحت کا لقب دیا جاچکا، اور پھر یہ تماشا کہ اپنی غلطی بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، ان نامساعد حالات میں ملک کا نوجوان طبقہ حد سے زیادہ مایوس ہو کر دیار غیر کا رخ کر رہا ہے، افسوس دنیا میں پوری قوت سے ابھرتی معیشت کے حامل پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چائنا جسے ون چائلڈ پالیسی نے جنریشن گیپ کے شدید بحران سے دوچار کر رکھا ہے، ہم نے دیار غیر رخ کرتی نوجوان نسل کی ایک بہت بڑی تعداد کے خوفناک رجحان سے بھی اپنے کرتوت ٹھیک کرنے کا پیغام حاصل نہیں کیا، اس وقت ملک میں جس خوفناک حد تک مہنگائی کی شرح ہے اور مافیاز ہر اعتبار سے منافع خوری کرنے میں مصروف ہے، حکومت نام کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی، فقط تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر تنقید، مقدمات کے اندارج اور الیکشن سے فرار کا ہنگام ہے، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، معذرت کے ساتھ حق سچ بات یہی ہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا جرم بھی انھیں عام آدمی اور متوسط طبقے کی دستیاب حمایت ہے۔ ایسا نہ ہو تو صبح ہی الیکشن کروانے پر حکمران لنگوٹ کس کے تیار ہوجائیں گے، درحقیقت پوشیدہ مفادات اور حکمرانی کی آڑ میں دولت اکٹھا کرنے کی آرزو کے لئے کٹھ جوڑ ہے۔ افسوس 75 سال بیت گئے اور اس کٹھ بندھن کو توڑ کر پاش پاش کرنے میں کسی کو مکمل کامیابی حاصل نہ ہوسکی، نتیجہ جس کا یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی عام آدمی ڈھونڈے نہیں ملتا، عام آدمی کی پھر زندگی کیسے اور کیونکر بہتر ہوگی، ثابت ہوا کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو، مساوات نہ ہو وہاں عوام ایسے ہی خوار ہوا کرتے ہیں، عام آدمی نے اس وقت عمران خان کی صورت میں تبدیلی کی امیدیں باندھ رکھی ہیں، آئندہ کیا ہوگا؟ سب کے امتحان کا وقت ہے، ابھی یا مزید ایک، دو یا تین صدیاں؟