کوئی آئے کچھ تو بتائے کہ قوم کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ،کیسے اور کیوں ہم ان حالات تک پہنچے ،ہر روز عوام پر مہنگائی کا بم کیوں گرا دیا جاتا ہے، کیا فرق ہے 14 اگست 1947 اور 2023 میں ،کیا بدلا ہے۔ آخر کیوں آج ہم اس نوبت تک آگئے مزید کتنی نسلیں انہی محرومیوں کا سامنا کریں گی بازاروں کی بے رونقی اور دکانوں پر بیٹھے قنوتیت کے شکار چہرے تمہیں نظر کیوں نہیں آتے کہاں سے پورے کریں وہ اخراجات بجلی کے بل ہیں یا تاوان ہیں؟ زندہ رہنے کے لیے خوراک تک کی رسائی ناممکن ہوتی جا رہی ہے وہاڑی میں گزشتہ روز ایک آدمی نے خودکشی کرلی وجہ یہ تھی پچھلے ماہ چھبیس ہزارکا بل آیا تو اس نے موٹر سائیکل بیچ دی اس ماہ انتیس ہزار کا آگیا ایک دوست بتا رہا تھا کہ گزشتہ رات وہ گھر گیا تو ساتھ ہمسائے سے لڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں وہاں گیا تو گھر میں اندھیرا تھا حالانکہ بجلی بھی تھی دو بھائی لڑ رہے تھے ایک بھائی رکشہ چلاتا ہے دوسرا مزدوری کرتا ہے اس نے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ 9 ہزار بجلی کا بل آگیا ایک بھائی اندھیرے میں بیٹھا روٹی کھا رہا تھا مجھے نہ روٹی نظر آرہی تھی نہ سالن پتہ نہیں وہ اندھیرے میں کیسے کھا رہا تھا۔ ساڑھے تین مرلے کا مکان تھا ایک بھائی نیچے دوسرا اوپر رہتا تھا اوپر والا کہتا تھا کہ میں تو پنکھا چلاتا ہی نہیں نیچے والا بھی ایسا ہی بول رہا تھا۔ ایک آدمی اپنے بچے کی سائیکل اٹھائے جا رہا تھا وجہ پوچھی تو اس نے تلخ لہجے میں کہا کہ یار بجلی کا بل دینے کی سکت ہی نہیں اس لیے بچے کا سائیکل بیچ رہا ہوں۔ 200 یونٹ سے نیچے آنے والے بل کی سبسڈی بھی ختم کر دی گئی بیشتر بل جو 200 سے نیچے تھے 10 ہزار تک کا بل انہیں بھی آیا اب کاروبار کے حالات اگر دیکھیں تو کہاں سے یہ لوگ ادا کریں گے پٹرول کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے نے غریبوں سے ان کا روزگار ہی چھین لیا آگے شہروں کی گلیوں میں موٹر سائیکل کے پیچھے لدا بنا کر لوگ کچھ نہ کچھ بیچنے نکلتے تھے۔ پٹرول کی قیمتوں نے بچت ہی ختم کر دی لوگوں نے اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے اٹھا کر کام پر لگانا شروع کر دیا پڑھ کر کون سی نوکریاں ملنی ہیں کم از کم گھر کا خرچ تو چلے گا اور بدقسمتی سے وہ بچے ہوٹلوں ورک شاپس دکانوں پر کام کر رہے ہیں شرح خواندگی آگے ہی ہمارے ملک کی اس خطے میں سب سے نیچے آ رہی ہے۔ لوگ شادیاں کیسے کریں ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے تجاوز کر چکی ملتان ڈویژن میں ایک ماہ میں 30 ہزار بیرون ملک جانے والوں نے پروٹیکٹر کروائے ہر دوسرا آدمی اس ملک سے نکلنے کی جستجو میں ہے اور ڈالر کی وجہ سے غیر ملکی ایر لائنز کے کرائے خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں پہلے دبئی کا ٹکٹ 40 یا 50 ہزار تک مل جاتا تھا اب وہی ٹکٹ ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر چکا ہے سعودی عرب کا ڈیڑھ لاکھ تک چلا گیا ہے اور یورپ امریکہ کا تو حساب ہی نہیں کسی کباڑیے کی دکان پر جا کر دیکھیں لوگ کیسی نادر و نایاب چیزیں حتی کہ گھر کے برتن تک بیچ رہے ہیں لوگ تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ نگرانوں کے آنے کی دیر ہے رہی سہی کسر یہ نکالیں گے اور وہ بلا خوف و خطر شروع ہو چکے ہیں۔ آج الیکشن کروا دیں نتیجہ کیا نکلے گا ہاں یہ ضرور ہوگا کہ قوم اس طرف لگ جائے گی بڑے بڑے نعرے دعوے الزامات لگائے جائیں گے گلے پھاڑ کر تقریریں ہوں گی یعنی الیکشن بھی ایک تہوار کے طور پر منایا جائے گا۔ تین چار مہینے خوب سرکس لگے گی اور پھر ایک اتحادی حکومت ایک نیا مسیحا آ کر بیٹھ جائے گا۔ یقین جانیں آج پوری دنیا ہمارے قرضے معاف کر دے بلکہ کھربوں ڈالرز ہمیں امداد کے طور پر بھی دے دے چلو اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ کیا ہم کھڑے ہو جائیں گے بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ چند ماہ نکال جائیں دوبارہ پھر وہیں آجائیں گے یعنی ہمارا حل پیسہ بھی نہیں نظام بھی نہیں ہے ہماری رگ رگ میں خواہ مخواہ کا دکھ درد یاسیت قنوتیت ہٹ دھرمی بھری ہوئی ہے مریض کو اگر مرض ہی سکون دینے لگ جائے تو ڈاکٹر کی تمام کاوشیں رائیگاں جائیں گی ہم خود ہی اس مقام پر پہنچے ہیں دنیا ہمارے حالات سے سبق سیکھ رہی ہے ہم دنیا کے لیے اچھی مثال کیا بنتے 76 سال میں جو صفائی کا مضبوط نظام ہی نہ بنا سکے ہماری گلیاں بازار اور اب تو گھر بھی گندگی کے ڈھیر ہیں کیا ایسا کہیں ممکن ہے کہ سیوریج یا گٹروں کا بدبودار پانی کئی کئی روز تک کھڑا کھڑا صرف شمسی تپش سے ہی خشک ہو یا اسے زمین ہی پی جائے اور وہی پانی پینے والے پانی میں مکس ہو کر آ رہا ہو ایسے ہی نہیں کہا گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے جن کی گلیاں سڑکیں بازار گھر صاف ستھرے ہوں گے ان کے ذہن بھی صاف ستھرے ہی ہوں گے میرا نہیں خیال کہ اب ہمارا حل کسی کے پاس ہوگا اور ہونا بھی نہیں چاہیے جب ہم خود ذمہ دار ہیں تو حل بھی ہم ہی کر سکتے ہیں۔ آج پورے پاکستان میں کوئی ایک غیر متنازع شخصیت بتائیں جس پر ساری قوم انکے احترام میں اجتہاد اختیار کرلے اچھا حکمران بھی حل نہیں کیونکہ ہم خود ہی نہیں بدلیں گے اور اس سے ہوش ربا ناممکن توقعات لگا لیں گے اب وہ آگیا مسئلے حل ہو جائیں گے ۔76 سال سے حکومت کا کیا کام کہ وہ اصلاح کی طرف جائے حکومت کو فلاح کی طرف جانا چاہیے بدقسمتی سے حکومتی سرپرستی میں موٹیویشنل سپیکرز نے قوم کو اصلاح کی طرف لگایا اور صبر اور تسلیم و رضا کا درس دیا اشرافیہ سے علیحدہ لفافے اور مراعات لیتے رہے اور ایک خاص طبقہ ہی پروان چڑھا اور باقی رل گئے۔