وزیر اعظم پاکستان عمران خاں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں درخت لگا کر ماحول کاتحفظ کیا جائے اور انہوں نے کوشش کی ہے اور خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب اور دیگر صوبوں کو بھی ہدائت کی ہے کہ شجر کاری مہم کو تیز کیا جائے لیکن اپوزیشن اور ٹمبر مافیا نے ڈٹ کر مخالفت کی مختلف علاقوں میں شجر کاری مہم میں حصہ لینے والوں پر حملے کر کے زخمی کیا گیا ہے ۔ عمران خان نے شجر کاری مہم کو جاری رکھ کر ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور ار بوں درخت لگائے جا چکے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن نے شجر کاری مہم میں مالی بے ضابطگی کے ڈنکے بجائے ہیں اور عمران خان کی شجر کاری مہم کو کرپشن کا محور قرار دیا ہے اس شجر کاری کو تیز کرنے کے سلسلہ میں مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قومی اسمبلی سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے کبھی بھی ملک کو پلوشن سے پاک کرنے کے لیے کوئی قرار داریا بل پاس نہیں کیا اب وقت آگیا ہے کہ عوامی نمائندے اسمبلیوں میں ایک دوسرے کو بجٹ بل کی کاپیاں مارنے کے بجائے قانون سازی کریں اور عوام کے ساتھ اقوام عالم کو پیغام دیں کہ ہم مہذب قوم ہیں حکومت اور اپوزیشن مل کر قوم کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں چھانگا مانگا اور چیچہ وطنی کے جنگالات تھے لیکن شریفوں کے دور حکومت میں ان کو بھی کاٹ لیا گیا جبکہ لاہور مال روڈ اور نہر کے کنارے درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا گیا جس کی وجہ سے لاہور سرسبزو شاداب کے بجائے گندگی کا ڈھیر بن گیا اب بزدار حکومت عمران خان کی ہدائت پر لاہور کو سر سبز بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ دیکھتے ہیں ان کو کامیابی کتنی ملتی ہے جبکہ جنگلات کو تباہ کرنے والوں نے چھانگا مانگا کو ہارس ٹریڈنگ کے لیے مشہور کیا اور اب اس نام سے شریفوں کے قصے کہانیاں مشہور ہیں اب تو میرے خیال کے مطابق دو ارب سے زائد جب تک درخت نہیں لگیں گے شہر لاہور پلوشن زدہ رہے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ شہر کا ہر فرد اپنے حصے کا اپنے گھر میں درخت لگائے تو ممکن ہے کچھ سال میں کمی کو پورا کیا جاسکے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے متعدد بار اپوزیشن کو دعوت دی کہ آئو مل کر قانون سازی کریں لیکن این آر او نہ مانگیں۔ ان کی کوئی بھی میٹنگ جو ہو گی وہ این آر او سے ہٹ کر نہ ہوگی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو لاہورہائی کورٹ نے 10 جولائی تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور ایف ائی اے کو بھی ہدایت کر دی ہے۔ اس سے قبل بھی عدالت سے مریم نوازشریف کے بارے حکم مل چکا ہے کہ ان کی گرفتاری سے دس دن قبل ان کو بتایا جائے کیا۔ کبھی کسی اور کو بھی عدالت سے ایسا ریلیف ملا ہے؟ جواب نہ میں ہو گا۔ میاں نواز شریف نے تو اپنے شاہی دور میں ڈاکووں کو پولیس میں بھرتی کیا پولیس میں بھرتی کا ایک پیمانہ تھا کہ گوالمنڈی کا ہوجس کو چاہا لبرٹی چوک میں گنے کے رس کی ریڑی لگوا دی باقی لوگوں سے جگہ خالی کروا لی اگر پڑھائی کے زمانے کے مسجد شہداکے قریب چنے لگانے والے کا پیغام آ گیاکہ حکومت کی زمین پر دوکان کو گرایا جا رہا ہے تو نواز شریف کا بطور وزیراعلیٰ حکم آ گیا کہ میں یہاں سے زمانہ طالب علمی میں چنے کھاتا رہا ہوں باقی سب کو گرا دیا گیا وہ چنے کی دوکان آج بھی قائم ہے اور عام ٹریفک کو روکے ہوئے ہے اس طرح جب موصوف وزیر اعظم بن گے تو نوازشات کا سلسلہ رکا نہیں ایف آئی اے اور دوسرے محکموں میں رولز ریلکس کر کے35 اور 40 سالہ اشخاص کو اہلیت نہ ہونے کے باوجود اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا وہی لوگ آج کل پولیس انتظامیہ اوراداروں میں عمران حکومت کے بجائے شریفوں کا حکم مانتے ہیں اور معاملات میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایکسپو سینٹر میں ہنگامہ کروا دیا اور ایسے ہی اساتذہ، نرسیں لیڈی ہیلتھ ورکر اور دیگر تنظیمیں اپنے حقوق کیلئے مظاہرے کر رہی ہیں ان پر لاٹھی چارج کر کے ہجوم کو مشتعل کر کے حق نمک ادا کر کے عمران اور بزدار کو بدنام کیا جاتا ہے وزیراعظم ہائوس اور وزیراعلیٰ پنجاب کے آفس میں پرانے شریف فیملی کے ملازم حکومتی احکامات ہر آرڈر کی کاپی حکمرانوں سے پہلے اپنے بھرتی کرنے والوں کو دیتے ہیں‘ متعدد ڈی سی کمشنر کے آفس میں اب بھی مسلم لیگ ن کے آنے والے رہنمائوں اور ورکروں کے کام کرنے کے ساتھ گرمجو شی سے تواضع کی جاتی ہے جبکہ حکمران طبقہ کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اور عہدداروں کو دفاتر کے اندر گھسنے نہیں دیا جاتا اور ساری رپورٹ شریفوں کو دی جاتی ہے اس لیے حکمرانوں کو تطہیر کرنا پڑے گی اور شریفوں کے زرخرید غلاموں سے قوم کو چھٹکارہ دلانا ہو گا ۔ عمران کواس ملک کو بھوک ننگ اور افلاس سے نکالنے کے لیے ان مگرمچھوں کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ اپوزیشن نے جو قومی اسمبلی میں گل کھلایا کہ لاہور سے بشریٰ اعتزاز کے مقابلہ میں ن لیگ کے جیتنے والے روحیل اصغر نے پنجابی میں حکومتی ارکان کو گالیاں دے کرپنجابی کلچر قرار دے دیا اس پر مریم نواز کے لب اور ٹوئٹر خاموش رہے اور نہ روحیل اصغر سے پوچھا گیا کیونکہ مریم نواز از خود فوج پولیس عدلیہ کے ساتھ نیب اور ایف آئی اے بارے مختلف مواقع پر اخلاق سے گرے بیان دیتی رہی ہیں جبکہ رانا ثناء اللہ جو کہ اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے ان کی بھی اس بارے زبان گنگ ہے۔