ہمارے ہاںجھوٹ اور مفادات کے تحفظ کو اس پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کی شعوری سمتیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں۔ خادم عوام کے دعویدار وزیراعظم نے اچانک اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور اسمبلی فلور پر فرمانے لگے: پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے وزیراعظم کی کرسی دس مرتبہ بھی قربان کرنے کو تیار ہوں! اگر ایسا ہے تو پھر انتخابات کا اتنا خوف کیوں؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے درست فرمایا ہے: نہ پارلیمنٹ نہ عدلیہ سب سے بالادست آئین ہے، اس پر موجودہ حکومت کا کردار سب کے سامنے ہے۔ آئین کی حاکمیت کے نعرے بلند کرنے والی تمام جماعتیں بے نقاب ہو چکی ہیں بلکہ جس ڈھٹائی سے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر فقط انتخابات کے نام پر روح لرزتی ہے اور معزز ججز پر بدترین تنقید کی جاتی ہے، عام پاکستانی جو خواندہ ہے، وہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا آئین، قانون اور جمہوریت ان چند سیاسی خانوادوں کیلئے لطف و کرم کا نام ہے؟ افسوس بہت زیادہ اس بلاول بھٹو زرداری پر ہے جو بھٹو مرحوم کا نواسہ ہے۔ آئین کے بانی کی روح ان کی تقاریر سن کر ضرور تڑپتی ہوگی، وہ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے جمہوریت، آئین اور قانون کی حاکمیت کیلئے وقت کے آمر کی تمام تر فسطائیت اور ظلم و جبر کے باوجود جیل کی کال کوٹھری میں شدید ناساز طبیعت میں کہا کہ میں نہیں جھکوں گا، میرے آرام کا وقت آن پہنچا، اپنے والدین سے ملاقات کا وقت آگیا۔ جمہوریت، آئین، قانون اور میرے نام کے نغمے گونجیں گے، میں عوام کے دلوں میں زندہ رہوں گا، میری قبر مہکے گی، ان کا نواسہ، ان کی سیاست کے وارث ہونیکا دعویدار، ان کی جماعت پیپلز پارٹی کا چئیرمن بلاول آئین کے برعکس کیا موقف رکھتا ہے؟ بھٹو کی پھر کیوں نہ کہا جائے، روح تڑپتی ہوگی۔ وزیر اعظم آنجناب شہباز شریف ن لیگ کے صدر ہیں، ذولفقار علی بھٹو کی قربانی اور سزا پر بات کر رہے تھے، گویا خود کو پی ڈی ایم اتحاد کی بناء پر ان کی قربانیوں کا کریڈٹ دیتے ہوئے ان کی سیاسی سوچ کا عکاس ثابت کرنے کی سعی میں مصروف تھے، کیا یہ ن لیگ جنرل ضیاء الحق کی سیاسی وارث نہیں، کیا دختر بھٹو کے خلاف یہ ن لیگ میدان عمل میں نہ رہی؟ اسے بھی چھوڑئیے؛ کیا ن لیگ کی ساری سیاسی تاریخ اینٹی بھٹو ووٹ کیش کرواتے نہ گزری؟ شومئی قسمت وقت کی پیشانی پر یہ پیشمانی درج ہے۔ حاکمین وقت کی نظروں میں آئین بے وقعت ہے! افسوس ساری عمر جسٹس منیر پر تنقید کرنے والے آج نظریہ ضرورت پر مجبور ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے خط بھجوا ڈالا، سمجھنے کی بات ہے: پارلمینٹ عوام کے نمائندگان کا مسکن ہے، آئین سازی کیلئے بااختیار عوامی نمائندے آئین کو خود سے مقدم کیسے جان سکتے ہیں؟ توہین پارلیمنٹ کی اصطلاح میرے منہ میں خاک لیکن عہد حاضر کی وہ ایجاد ہے، جسے نظریہ ضرورت کہے بغیر سکون حاصل نہیں ہوتا، اب مذاکرات مذاکرات کا کھیل شروع ہوچکا۔ چیف جسٹس واضح کر چکے کہ مذاکرات کی صرف تجویز ہے، عدلیہ وہیں کھڑی ہے لیکن جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان نے کسی ضابطے کا لحاظ نہ رکھا اور دشنام طراز ہوئے کہ ایک جانب مذاکرات اور دوسری جانب ہتھوڑا چلایا جارہا ہے، ایسے ایسے الزامات اور گفتگو عام ہے، جسے سن کر کوئی ذی شعورِ بھان متی کے اس کنبے کو جمہوریت اور آئین پسند نہیں کہہ سکتا مگر ہر جانب ان کی آوازوں کی گونج ہے۔ یہ سچ پر غلبہ پانے کی آرزو کا وہ وطیرہ ہے، جسے دراصل ہتھوڑا کہا جانا چائیے، بہرحال تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انکے مدمقابل ڈٹ کر کھڑے ہیں جو انھیں قبول و منظور نہیں۔ عمران خان پر مقدمات کی بدترین بوجھاڑ اور وزیر آباد حملے کے باوجود ان کے دلوں کو تسکین نہیں، عوام کو ساتھ لے کر چلنا، عوام کو متحرک رکھنا، عوام کو شعور دینا، نوجوان نسل کو شامل سیاست کرنا، عمران خان کے یہ وہ جرائم ہیں، جنہیں پی ڈی ایم سرکار ہضم کرنے کو تیار نہیں۔ ضد اور آنا کی جنگ چھیڑ دی گئی، ریاست کو مفادات کے تابع کر کے ایک مقبول ترین عوامی لیڈر کے مدمقابل لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، جو راستے میں آرہا ہے، اسکی ہر لحاظ سے پگڑی اچھالنے کی کوششیں جاری ہیں، اسے خائف کرنے کا ہر راستہ اختیار کیا جا رہا ہے، مخالفین کی گرفتاریوں اور انکی تذلیل میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑنے کے باوجود کچھ ہاتھ نہیں آرہا تو سروں پر چادریں ڈال کر ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے مقدمے میں الجھا کر ہر وہ ہتھکنڈہ اپنایا جارہا ہے، جس کی جمہوریت اجازت نہیں دیتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی ساس کی آڈیو لیک کا معاملہ کیا تھا؟ میڈیا کو کیسے الہام ہوا کہ یہ خواتین کون ہیں؟ جن کی آڈیو لیک ہوئی، موجودہ دور میں ایسا طرز عمل حکمرانوں کو محض بے نقاب کر رہا اور کچھ نہیں، جس سے ان کی مقبولیت کی رہی سہی کسر بھی نکل رہی ہے۔ پی ڈی ایم جماعتوں کا بچا کچا ووٹر کہنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ ان کے پاس کوئی بیانیہ نہیں، ان حالات میں ہوش کرنے کی بجائے حکمران عمران خان کو آئین و قانون کے برعکس پچھاڑنے اور انتخابات روکنے کیلئے ہر حد تک مزید جائینگے، مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، حکمران بھی اس سے کچھ حاصل نہیں کر پائینگے۔ ان کی جستجو ہے کہ کسی طرح اگست کے بعد ستمبر بیت جائے اور وہ راؤنڈ شروع ہو، جس کی بند کمروں میں تیاری ہوچکی ہے، کیا ایسا ہو سکے گا؟ فرض کریں زور زبردستی ایسا کر بھی لیں تو سیاست میں ان کا مستقبل و مقدر رسوائی اور تاریکی کے سوا کچھ نہ ہوگا، زرداری یا نواز شریف اگر اس گیم میں ہیں کہ عمران خان کو میدان سے باہر کر کے کسی کی اکثریت نہ ہونے پر جوڑ توڑ کر کے یا کروا کے بلاول تو کبھی مریم کو نورا کشتی کا کھیل کھیل کر وزیر اعظم بنوا لیا کریں گے تو اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے: آنا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ تاہم عوام کا وطیرہ بتاتا ہے کہ ملک میں بڑا انقلاب بھی برپا ہوسکتا ہے، حکمرانوں کو اگست اور ستمبر کا انتظار ہے تو عمران خان کو 14 مئی کا! ہوگا وہی جو منظور خدا ہوگا!!!