پرویز الٰہی کے گھر پر چھاپے کے واقعہ سے وطن عزیز میں مزید مایوسی پھیلی ہے، نوجوان طبقہ بالخصوص اس امر کا اظہار کر رہا ہے کہ کوئی کچھ کہے ملک میں ائین، قانون اور جمہوریت صرف برائے نام ہیں، کیا ایسا موقف غلط ہے؟ پولیس نے پہلے پرویز الٰہی کے گھر کے داخلی دروازے کو توڑنے کی کوشش کی، بعدازاں بکتر بند گاڑی کی ٹکر سے دروازہ توڑ دیا ، سیاسی انتقام کی یہ بدترین مثال ہے، عمران خان ن کا کہنا ہے کہ ایسی فسطائیت اور لاقانونیت آمر پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں تھی،، تاہم اس واقعہ پر پنجاب کی نگران حکومت، پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت ساری رات خاموش رہی، اس خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے، کیا اسے رضا مندی تصور کیا جائے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پرویز الٰہی دہشت گرد ہیں کہ گھر کے اندر داخل ہو کر بھی کسی بات کو خاطر میں نہیں رکھا گیا، حیرت ہے؛ قوم تو سن رہی تھی کہ مذاکرات کا سلسلہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے مابین جاری ہے اور منگل کے روز کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے، پھر وہ کون سی قوت ہے، جس نے عمران خان کی اسلام آباد پیشی کے موقعہ پر تحریک انصاف کے کارکنوں پر لاٹھیاں برساوائیں اور انھیں گرفتار کروا دیا، بعدازاں مذاکرات کے دوران اعتراض پر رہا کر دیا گیا، اب وہ کون ہے، جس نے پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس کو بھیجا؟ یہ سوال ہر خاص و عام کے ذہین میں گونج رہا ہے، ، مذاکرات کے فا ئنل راؤنڈ سے پہلے تحریک انصاف کے صدر پرویز الہٰی کے گھر پر پولیس کے حملے کو سیاسی حلقے مذاکرات کی ناکامی سے مشروط کرتے ہوئے and Rule Divide کی سازش کا نام دے رہے ہیں، ایسا موقف کہ پنجاب کی نگران حکومت 90 روز مکمل ہونے پر آئینی نہیں رہی اور وفاقی حکومت کی سہولت کاری کا کردار بغیر کسی جواز کے ادا کر رہی ہے، تواتر سے سامنے آنے لگا ہے، کہا جا رہا ہے کہ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی پاکستان میں موجود نہیں تو پولیس اور انٹی کرپشن ٹیم خود کو قانون سے بالا تصور کر سکتی ہے؟ یقینا ایسا ممکن نہیں، قوم کا بچہ بچہ اصل حقائق جانتا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے پیچھے کون ہے اور مقاصد کیا ہیں، بات محض پرویز الٰہی کے گھر پر دھاوا بولنے کی نہیں بلکہ آئین اور قانون کی حاکمیت کی ہے، رات بارہ بجے اچانک آپریشن شروع کیا جانا اور چادر چار دیواری کے تقدس کو صرف پامال نہ کرنا بلکہ روند ڈالنا، اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری طاقت کے آگے کوئی ٹھہر نہیں سکتا، یہ واضح پیغام ہے کہ ائین، قانون اور جمہوری روایات سے زیادہ ریاست کی طاقت ہے، گویا طے ہوا: آئین کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات نہیں ہونگے اور آئندہ دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات بھی دل چاہے گا تو منعقد کیے جائیں گے وگرنہ نہیں، ایک بات طے ہو چکی کہ طاقت کا استعمال عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں، اس لیے پرویز الٰہی کے گھر پر اس انداز میں حملہ زن ہوئے کہ اپنی آنا کی تسکین کی جاسکے لیکن یہ معاملہ بھی الٹا پڑ گیا ہے، پرویز الٰہی کا سیاسی قد کاٹھ بڑھا ہے، پرویز الٰہی سے جو چاہے سیاسی اختلاف کر سکتا ہے لیکن اس قسم کی غنڈہ گردی کسی دشمن کے گھر بھی ہو تو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق حملہ آوروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقع سز دی جانی ازبس ضروری ہے، پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ہر اعتبار سے پاک سر زمین پاکستان کو جمہوری بنیادوں پر ترقی کی رفعتوں تک پہنچانے کے خواہاں تھے، افسوس ایک مرتبہ پھر وطن عزیز میں خطرناک کھیل بھی شروع کیا جا چکا ہے، کیا اس طرح انھیں کچھ حاصل ہو سکے گا جو پی ڈی ایم کے رسوا زمانہ اور ناکام ترین تجرباتی کھٹارا ٹرین کو بوسیدہ پٹڑی پر دھکا لگا کر چلانے پر بضد ہیں، ایسا بالکل ممکن نہیں، پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت میں طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں، اس ضمن میں تبدیلی کا انقلاب لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، ہر دونوں صورتوں میں طاقت کے استعمال پر بصد ہونے والوں کی سیاست میں گرفت کمزور ہوگی، پی ڈی ایم کی کوئی ایک جماعت بتا دیں، جس کی سیاسی ساکھ بچی ہو، کب سے سیاسی جماعتیں ہی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے لگیں، ان کے وجود سے آمریت جھلکتی ہے اور ہماری 75 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ آمریت کے ہر وجود اور علامت سے عوام نفرت کرتے ہیں، جس نے آمریت دکھائی، سیاسی میدان میں ناک آؤٹ ہوا، اس مرتبہ انجام کار کیسے مختلف ہوسکتا ہے؟ سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا۔۔۔۔کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا؛ کے مصداق عوام بیزار ہوچکے ہیں، انھیں سب سمجھ آ رہا ہے، ملک کی معاشی و اقتصادی حالت زار نے عام پاکستانی کو اس حد تک بے کس کر دیا ہے کہ وہ اپنی بھڑاس انتخابات میں ووٹ کے ذریعے نکالنا چاہتا ہے اور اس پر اپنی اصلاح کی بجائے طاقت کے زعم میں وہ سب کیا جارہا ہے جو انقلاب کی راہ ہموار کر رہا ہے, خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس حد تک نہ جائیں کہ ہر طرح کے مذاکرات کے دروازے بند ہو جائیں اور فیصلہ سڑکوں پر عوامی عدالت میں ہو، پرویز الٰہی کے گھر پولیس کو حملہ آور کر کے عوامی جذبات کو اس انداز میں مشتعل کیا گیا ہے کہ آئین اور قانون کی حاکمیت پر یقین رکھنے والوں کو مایوسی نے آن گھیرا ہے اور وہ طاقت کے اندھے استعمال کے آگے بند باندھنے کے خواہش مند ہیں، بات پرویز الٰہی کی نہیں، آئین، قانون اور جمہوری تقاضوں اور ضابطوں کی ہے!!!