اگر آپ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ریکارڈ چیک کریں تو معلوم ہو گا کہ سرکاری محکموں میں گزشتہ تین دہایوں میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ لاکھوں صفحات پر مشتمل رپورٹیں کمیٹی کی لائبریری میں موجود ہیں ۔خاکسار کو یاد ہے کہ جب محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تو جھنگ سے قومی اسمبلی کے رکن سردازادہ محمد علی شاہ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ۔میں اس وقت نوا ئے وقت کا رپورٹر تھا شاہ صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں وہ بہت پریشان رہتے تھے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس اس وقت بھی میڈیا کی کوریج کے لیے اوپن ہوتے تھے۔یہ 1987 کے آخر کی بات ہے راقم پارلیمنٹ ہائوس کے چوتھے فلور میں شاہ صاحب کے دفتر میں بیٹھا تھا شاہ جی نے مجھے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں چلتے ہیں۔ اجلاس میں سرکاری محکموں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے کی خورد برد کے کیس زیر بحث تھے ان کیسوں میں سرکاری افسر اور دوسرے ملازم ملوث تھے۔ معلوم ہوا کہ اربوں روپے پرہاتھ صاف کرنے والے افسر یا تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں یا دنیا سے ہی چلے گئے ہیں ۔ سردارزادہ محمد علی شاہ نے مجھے اشارہ کیا کہ باہر نکلو ہم باہر نکل آئے شاہ صاحب اپنے دفتر میں آئے اور چائے کا آرڈر دیا ۔شاہ صاحب نے کہا آپ نے سن لیا ہے کہ کس طرح ملک کو لوٹا جا رہا ہے لوٹ مار کرنے والے افسر یا تو ملک سے باہر جا چکے ہیں یا دنیا سے ہی رخصت ہوگئے ہیں۔ یہ بات چالیس سال پرانی ہے۔اب تو صورتحال اور بھی تشویشناک ہے اس وقت وزیراعظم محمدخان جونیجو پاکستان کے وزرائے اعظم میں سے سب سے زیادہ دیانت دار وزیراعظم سمجھے جاتے ہیں۔ جونیجو صاحب نے کرپشن کے الزامات سامنے آئے کے بعد کئی وزرائے سے استعفے لے لئے تھے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیر تجارت شہزادہ مجدین بلوچ سے اس الزام کے بعد استعفے لیا گیا کہ انہوں نے ایک پارٹی کو تو لئے ایکسپورٹ کرنے کا کوٹہ خلاف قانون دے دیا تھا جونیجو نے اپنے معتمد ساتھی انور عزیز چوہدری سے اس لیے استعفے لیاتھا کہ انہوں نے اپنے حلقے کے سرکاری فنڈ ایک این جی او کے ذریعے خرچ کے تھے جس کی قانون کے تحت اجازت نہیں تھی ۔ جونیجو نے وزیراعظم ہائوس کے اخراجات کم کرنے دئیے تھے۔ وزیراعظم ہائوس میں بننے والی ڈشوں کی تعداد بہت کم کر دی تھی یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جونیجو نے اعلیٰ سرکاری افسروں جن میں جرنیل بھی شامل تھے، کو سوزوکی کاروں میں سفر کر نے کا حکم دیا تھا۔۔ان اقدامات کی وجہ سے جونیجو کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان کے تعلقات بگڑ کئے تھے۔ ضیا ء الحق انھیں خود سندھ سے تلاش کر کے لائے تھے ضیاء جونیجو تعلقات میں کشیدگی اس وقت انتہاکو پہنچ گئی جب جونیجو نے افغانستان کے مسئلے کو جل کرنے کے لئے پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کی راولپنڈی میں کانفرنس بلا کر جنیوا سمجھوتے پر دستخط کرنے کے لئے قرار دار منظور کرائی۔۔ بات ہو رہی تھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کرپشن کی، اس کمیٹی کے کئی سربراہ آئے اور گئے ۔۔ بڑے بڑے سکینڈل سامنے آئے لیکن کوئی بڑا مجرم نہیں پکڑا گیا اربوں روپے کھا پی کر لوگ چلے گئے اور کئی پاکستان میں دندناتے پھر ر ہے ہیں۔۔ پی اے سی کے سربراہ ہر اجلاس کے دوران بڑے بڑے بیان دیتے ہیں۔۔ کرپشن کے کیس ایف آئی اے کے سپرد ہوتے ہیں نتیجہ صفر نکلتا ہے۔۔ ایک زمانے میں ریلوے کی زمین پر قبضہ کا سکینڈل آیا اور معاملہ ٹھپ ہو گیا قومی بنکوں سے اربوں کے قرضے لے کر معاف کرانے کا شور مچا کسی سے کوئی پیسہ ریکور نہیں ہوا۔۔بجلی اور گیس کی اربوں روپے کی چوری کے سکینڈل روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتے ہیںکچھ نہیں ہوتا۔۔اب تو نیب نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ کئی کرپشن کے کیس ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔۔ تازہ ترین اطلاعات سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں کہ کروڑوں ڈالر سولر پینل کے نام پر ادھر ادھر کئے گئے ہیں ۔۔پینل چین سے آئے ہیں ڈالر دوسرے ملکوں میں گئے ہیں۔۔دنیا کے کئی ممالک کے سربراہ کرپشن کے جرم میں جیل چلے گئے، پاکستان میں کوئی پو چھنے والا نہیں۔۔ جنوبی کوریا کی خاتون صدر چند سال پہلے جیل چلی گئیں۔۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن پارٹی سکینڈل میں وزارت عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اسرائیل کے ایک صدر کرپشن پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔۔کوئی کسی کا احتساب نہیںکر سکتا تو پاکستان میں نہیں کر سکتا ۔۔یہاں سیاستدان اور سرکاری افسر کوشش کرتے ہیں کہ احتساب کے قانون کو بے اثر بنا دیا جائے۔۔ زرداری صاحب نے کہا کہ احتساب اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔۔دوسرے الفاظ میں پاکستان میں ہر شخص کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ جو چاہے کرے۔۔ یہ جملہ پاکستان کے گلی کوچے میں زبان زد عام ہے کہ یہاں کسی کو کون پوچھتاہے۔۔دنیا کا کوئی نظام احتساب کے بغیر نہیں چل سکتا۔۔ جمہوری نظام کی بنیاد ہی احتساب پر ہے۔۔ہم پاکستانی کسی کام کا احتساب نہیں چاہتے خاص طور پر ہمارے لیڈر اور ریاست کے کرتا دھرتا افراد اپنے آپ کو اس عمل سے ماورا خیال کرتے ہیں۔۔ قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ عالمی بنک کے ا یک اعلی افسر جو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے تو ایک انگریزی اخبار نے ان کے دئیے گئے بجٹ پر نکتہ چینی کی تو شعیب نے انہیں فون کیا اور کہا کہ شہاب تم نے فلاں اخبار کا اداریہ دیکھا ھے یہ کیا بکواس ہے۔۔قدرت اللہ شہاب کے مطابق بجٹ پر اخبار کے تبصرے کو بکواس کہا گیا۔۔ اب تو میڈیا میں قومی خزانے کی لوٹ مار کے جو واقعات رپورٹ ہو رہے انھیں پڑھ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ان وجوہ کی بنیاد پر عالمی برادری پاکستان کے بارے میں منفی تاثر رکھتی ہے۔۔ کرپشن انڈیکس میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔۔ سب کو معلوم ہے لیکن صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک کا امیج بہتر بنانے کی کسی کو کئی فکر نہیں اب تو یوں لگتا ہے ہم سب بدعنوانی سے سمجھوتہ کر چکے ہیں ٭٭٭٭٭