مکرمی !افلاطون نے یوٹوپیا یعنی اک خیالی مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جس کی حدود میں کچھ بھی غلط نہیں ہوتا اور ہر پہلو خیالی پلائو کی حد تک آئیڈیل ہوتا ہے۔اس تصور کو خاصی شہرت ملی اور مثالی فلاحی ریاست کیلئے راہ نما اصول سمجھی جانے لگی جس میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔یہ جغرافیائی لحاظ سے نا قابلِ تسخیرہے، عوام خوشحال اورحکومت مستحکم ہے۔ یوٹوپیا کا متضاد ڈِسٹوپیا بمعنی ناکام اور دیوالیہ ریاست ہے جس کے لوگ اورحکمران کرپٹ مزاج ، بد مزاج اور نا اہل ہیں۔ وطنِ عزیز کی بات کریں تو حکومت اور ان کے حامیوں کے نزدیک یہ دیس یوٹوپیا جبکہ اپوزیشن اور میڈیا کے ہاں ڈسٹوپیا شمار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ باتیں۔ ڈسٹوپیا ایسی ریاست جس میں ہر آنے والے کا بول بالا اور جانے والے کا منہ کالا کیا جائے۔ جہاں کی حکومت ، سرکارِ بے سروکار کے سوا کچھ نہ ہوالبتہ ٹیکس زنی میں کمال رکھتی ہو۔ رمضان بازاروں کے سراب ، سمگلنگ کی کلیپٹوکریسی، ذخیرہ اندوزی کا کینسر،عدم برداشت کا بلڈپریشر،رشوت کی شوگر،وعدہ خلافی کا ڈمینشیا،اخلاقیات کا جذام ، خود نمائی و تشہیر کا موتیا، کام چوری کا فالج ،سرخ فیتے کی ٹی بی ، دشنام طرازی کا یرقان اور سوشل میڈیا کا ایڈز عام ہو۔جہاں ایک سال میں ایک کروڑ ملازمتوں کے سبز باغ دکھائے جائیں۔گالی ،لعنت اور کردار کشی تہذیب بن جائے۔ جوتے ، سیاہی ، گلاس اور ڈنڈوں کا رواج پنپ جائے اور حفظِ مراتب جاتے رہیں۔ ( امجد محمود چشتی ، میاں چنوں )