عماد نے سنجیدگی سے کہا۔’’اگر شبہہ ہوجائے تو ہمارے محکمے کو وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ میں نہیں چاہتی تھی کہ چولستان جانے کا معاملہ پھر ٹل جائے۔ میں نے اپنی بدلی ہوئی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’میں اپنے ساتھی سے کچھ مشورہ کرلوں؟‘‘ ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں کار کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مجھے عدنان سے نہیں، بانو سے مشورہ کرنا تھا جن کا عکس اس وقت بھی اسکرین پر تھا۔ ’’سن لیا؟‘‘ میں نے بہ ظاہرعدنان کی طرف دیکھا۔ میری مخاطب در اصل بانو تھیں ۔ ’’ میں سب کچھ دیکھ چکی ہوں ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ یہ تم پر ایک حملہ تھا لیکن وہ لوگ یہ تو نہیں سمجھے ہوں گے کہ تم صدف ہو ۔ یہ بتائو‘ اس شخص سے کیا باتیں ہوئیں؟‘‘ میں نے وضاحت سے انہیں سب کچھ بتا دیا ۔ ’’ ہوں ۔‘‘ بانو سوچنے لگیں ۔ ’’ چولستان پہنچنے میں پھر دیر ہونے کا امکان ہے ۔ ‘‘ ’’ اسی پر میں جھنجلا گئی ہوں ۔ ‘‘ ’’ جھنجلائومت! اسے بتا دو کہ تم کون ہو۔‘‘ ’’ ایس آئی ایس ؟ ‘‘ مجھے تعجب ہوا۔ ’’ ہاں ۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ ممکن تو خیر یہ بھی ہے کہ اس ہیلی کوپٹر کو بھی تباہ کردیا جائے اور اس شخص کیپٹن عماد کو بھی لیکن اس طرح تمھارے لیے کام کرنا دشوار ہوجائے گا ‘ اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے ہی ملک کی ایجنسی کو نقصان پہنچانا کسی طرح بھی حب وطن نہیں ۔ ‘‘ ’’ اگر میں نے اسے بتایا کہ میں چولستان کیوں جارہی ہوں تو شاید وہ بھی اس مہم میں میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوجائے ۔‘‘ ’’ کوئی حرج نہیں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ فری میسن لاج کے خلاف دومحکموں کا اتحاد ہوجائے گا ۔‘‘ ’’ بہتر ۔ ‘‘ میں نے طویل سانس لی ۔ عدنان خاموش بیٹھا رہا تھا ۔ میں کار سے اتری ۔ ’’ مشورہ ہوا ہے کہ میں تحمل سے کام لوں ۔ ‘‘ ’’ کس سے مشورہ ہوا ہے ؟‘‘ عماد حیرت سے بولا ۔ وہ دیکھتا رہا تھا کہ عدنان نے بالکل خاموشی اختیار کرکھی تھی ۔ ’’ میرا ساتھی اشاروں میں بھی بہت کچھ کہتا ہے ۔ ‘‘میں نے کہا اور اس سے پہلے کہ عماد پھر کچھ تبصرہ کرتا ‘ میں نے جیب سے اپنا شناختی کارڈ نکال کرعماد کی طرف بڑھادیا ۔ ’’ ایس آئی ایس !‘‘ عماد چونکا ۔ ’’ کیپٹن صدف؟‘‘ ’’ اب میں کمانڈر صدف ہوں ۔‘‘ ’’ جنرل شناور کی صاحب زادی ؟‘‘ ’’ جی ہاں ۔‘‘ ’’ لیکن یہ تصویر ؟‘‘ عماد کی نظر کارڈ پر گئی جس پر میری اصل تصویر نہیںتھی ۔ ’’ میں اس مہم میں میک اپ کرکے آئی ہوں ۔ ‘‘ ’’ مہم؟‘‘ ’’ جی ہاں ۔لارسن اور اس کے ساتھی ایک دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں انہی کی ایک کچھار کی تلاش میں ہوں ۔ ‘‘ میں نے موساد یا فری میسن لاج کا نام لینا مناسب نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔ ‘‘ کلبھوشن یادیو نے جو نیٹ ورک قائم کیا تھا ‘ اس میں کچھ غیر ملکی بھی ہیں جو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد بھی فعال ہیں ۔ ‘‘ ’’ آپ کمانڈر صدف ہوں یا کیپٹن صدف! مجھے یقین نہیں آرہا ہے ۔ یہ معلوم ہی نہیں ہورہا ہے کہ آپ میک اپ میں ہیں ۔ ‘‘ ’’ میرے محکمے میں ایسے کئی ہنر مند ہیں ۔ ‘‘ ’’ مجھے اس کی تصدیق کرنی پڑے گی کہ آپ صدف ہیں ۔‘‘ ’’ کیسے تصدیق کریں گے؟‘‘ ’’ مجھے مسٹر داراب کا نمبر معلوم ہے ۔‘‘ ’’ تو ضرور کیجئے تصدیق ۔‘‘ عماد اپنے موبائل پر نمبر ملاتا ہوا مجھ سے کچھ دور چلا گیا۔ مجھے اطمینان تھا کہ مسٹر داراب اس کی تصدیق کر دیں گے ۔ ممکن نہیں تھا کہ بانو نے ان کو بے خبر رکھا ہو ۔ میں نے دیکھا کہ کچھ باتیں کرکے کیپٹن عماد نے کوئی اور نمبر بھی ڈائل کیا ۔ غالباً وہ اب اپنے محکمے سے بات کررہا ہوگا ۔ آخر وہ میرے قریب آیا ۔ ’’ ٹھیک ہے ۔ ‘‘ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔ ’’ مسٹر داراب نے تصدیق کردی ہے ۔ آپ چولستان میں کہاں رکیں گی ۔ ؟‘‘ ’’ جی الحال میری منزل اللہ ڈینو کا ڈیراہے ۔‘‘ ’’ میں اس نام سے واقف ہوں ۔ کبھی گیا نہیں ہوں لیکن جانتا ہوں ۔ کیا آپ کا محکمہ پسند کرے گا کہ میں بھی اس مہم میں آپ کا شریک بن جائوں ؟‘‘ ’’ میرا خیال ہے کہ میرے محکمے کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ ‘‘ ’’ تو آپ وہاں پہنچئے !میں دوسری کار میں وہاں آتا ہوں ‘ بلکہ آپ فوراً روانہ ہوجائیں ۔ پولیس آتی ہی ہوگی ۔ میں ظاہر یہ کروں گا کہ حملہ مجھ پر کیا گیا تھا ۔ میری تباہ شدہ کار ‘ پولیس دیکھ ہی لے گی ۔ ‘‘ ’’ آپ وہاں کب تک پہنچیں گے ؟‘‘ ’’ جلد از جلد کوشش کروں گا ۔ بس آپ روانہ ہوجائیں ۔ ‘‘ پولیس کی گاڑیوں کے مدھم سائرن سنائی دینے لگے تھے ۔ ان کے ساتھ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی ہوں گی ۔ ’’ غالباً آپ نے اپنے محکمے سے بھی بات کرلی ہے !‘‘ ’’ جی ہاں ۔ بس آپ روانہ ہوجائیں ،جلدی کریں ۔‘‘ میں تیزی سے اپنی کار میں بیٹھی اور انجن اسٹارٹ کیا ۔ بانو اسکرین پر موجود تھیں ۔ ’’ کیا کہا اس نے صدف ؟‘‘ انہوں نے پوچھا ۔ میں نے وہ سب کچھ بھی انہیں تفصیل سے بتادیا ۔ ’’ گڈ!‘‘ بانو نے سب کچھ سن کر کہا ۔ میں نے پوچھا ۔’’ اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے نا کہ اب وہ بھی میرے ساتھ ہوگا؟‘‘ ’’ کوئی حرج نہیں ہے ‘ بلکہ اس قسم کے محکموں میں ہم آہنگی پیدا ہو تو یہ ایک اچھا شگون ہوگا ۔‘‘ میں کار حرکت میں لاچکی تھی ۔ ’’ اللہ ڈینو کے ڈیرے پر پہنچ کر مجھے اطلاع دے دینا ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ وہ تو دوں گی ،ظاہر ہے ۔‘‘ اسکرین سے بانو کا عکس غائب ہوگیا اور عقبی منظر دکھائی دینے لگا ۔ میری سیکیورٹی والوں کی کار بھی حرکت میں آچکی تھی ۔ کیونکہ وہ سارے حالات سے واقف نہیں ہوں گے ‘ اس لیے الجھن میں تو ہوں گے ۔ میری کار تیز رفتاری سے صحرائے چولستان کی طرح بڑھ رہی تھی ۔ صحرائے چولستان کے غیر معمولی ہنگامے ! آئندہ اقساط میں پڑھیے!