پاک فوج نے بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور کمپلیکسز پر انتیس اور تیس جنوری کی رات خود کش حملہ آوروں سمیت متعدد دہشت گردوں کی کارروائی ناکام بنا دی ہے۔عسکریت پسندوں نے ملک کی دوسری بڑی جیل مچھ جیل ، ریلوے سٹیشن اور لیویز تھانے پر حملے کئے تھے۔سکیورٹی اداروں کی جوابی کارروائی میں نو دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دو شہری اور چار سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور مچھ کے درمیان کولپور کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ 29 اور30 جنوری کی درمیانی شب اس حملے کے باعث مچھ شہر میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں جبکہ اس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ 30 جنوری کی شام تک جاری رہا ۔منگل کی شب اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق کئی ’دہشت گردوں‘ نے مچھ اور کولپور میں کپمپلیکسز پر حملہ کیا جن کا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے موثر جواب دیا۔‘’حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز کو فوری طور پر متحرک کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز ملک میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مچھ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ مچھ حملے میں مجید بریگیڈ ، سپیشل ٹیکنیکل آپریشنز سکواڈ اور انٹیلیجنس ونگ نے حصہ لیا ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی کی زیر صدارت اعلٰی سطحی اجلاس میں بلوچستان میں امن و امان اور مچھ صورتحال سے متعلق جائزہ لیا گیا۔نگراں وزیر اعلیٰ میر علی مردان خان ڈومکی کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے واقعات کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات ضروری ہے۔مبصرین کے مطابق الیکشن کے قریب رونما ہونے والے واقعات انتخابی عمل کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مطابق انہوں نے سکیورٹی پروفائلنگ پر ازسر نو نظر ثانی کرتے ہوئے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی۔انھوں نے کہا کہ مچھ میں سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے محدود تعداد میں ہونے کے باوجود نہایت بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔بلاشبہ بہادر افواج نے ہر نوع کی دہشت گردی کے خلاف بہادری دکھائی ہے ، ہزاروں سکیورٹی اہلکار جانیں قربان کر چکے ہیں۔دہشت گردی کے انسداد کی کارروائیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی شہادتیں اگرچہ فرض کی ادائیگی کے دوران کسی قربانی سے گریز نہ کرنے کا جذبہ ظاہر کرتی ہیں تاہم لیویز اور پولیس کے جوانوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدید خطوط پر مبنی پیشہ ورانہ تربیت کی فراہمی کے لیے مزیدموثر حکمت عملی پر فوری طور کام شروع کیا جانا چاہیئے۔بلوچستان بھارت اور دوسری پاکستان دشمن قوتوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔کچھ مغربی مبصرین کا دعویٰ ہیکہ بھارت بی ایل اے کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔ تاہم اگست 2013 میں، امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میںدوسری سمت سے دشمن عسکریت پسندوں کی دراندازی ہوتی ہے۔ اس لیے پاکستان کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ ہیربیار مری 2007 سے بلوچستان لبریشن آرمی کا لیڈر ہے۔تاہم 2015 میں ایک انٹرویو میں، اس نے گروپ کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کی تردید کی۔ حیربیار کے بھائی بالاچ نے 2000 سے لے کر 2007 میں مارے جانے تک اس گروپ کی قیادت کی۔بھارتی اخباردی ہندو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بی ایل اے کے کمانڈروں نے بھیس بدل کر اور جعلی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ہسپتالوں میں علاج کروانے کی کوشش کی تھی۔بی ایل اے خضدار کا ایک عسکریت پسند کمانڈر 2017 میں کم از کم چھ ماہ تک دہلی میں رہا جبکہ اس نے گردے کی بیماری کا علاج کروایا۔ ایک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں اپنے علاج کی اطلاع کے بعد ایک اور کمانڈر، اسلم بلوچ نے بھارت کا دورہ کیا۔پاکستان نے عالمی فورمز پر متعد بار بھارت اور بی ایل اے کے تعلق پر آواز اٹھائی ہے،پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ قندھار اور جلال آباد، افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں نے بی ایل اے اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ، تربیت اور مالی امداد فراہم کی ہے۔ اگرچہ بلوچ علیحدگی پسند حربیار مری نے اس گروپ کے بھارت سے روابط کی تردید کی اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ وہ بی ایل اے کا رکن نہیں ہے لیکن حقائق اس کے الٹ تصویر پیش کرتے ہیں۔کچھ مدت پہلے افغانستان نے بی ایل اے کی خفیہ حمایت کا اعتراف کیا تھا۔ قندھار میں اسلم بلوچ، جسے اچھو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی ہلاکت کے بعد افغان حکام نے بتایا کہ افغان پولیس چیف عبدالرازق اچکزئی نے اسلم بلوچ اور دیگر علیحدگی پسندوں کو قندھار میں برسوں سے رکھا ہوا تھا۔ پاکستان سیاسی و معاشی استحکام کی جدو جہد کر رہا ہے۔مشرق وسطیٰ کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک متوازن مقام پر خود کو رکھنے کا آرزو مند ہے۔دہشت گردانہ حملے دراصل پاکستان کی توجہ تقسیم کرنے اور اس پر بعض معاملات میں دباو بڑھانے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔سکیورٹی اداروں نے بلوچستان کے علاقوں میں اگرچہ دہشت گردوں کو ناکام کر دیا ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔بلوچستان کی محرومیاں دور کرکے اور ناراض افراد کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے ساتھ ایک بھرپور انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی کی ضرورت ہے جس سے صوبے میں امن قائم ہو سکے۔