حماس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط پر مسلح مزاحمت ترک کرنے کی پیشکش کی ہے، غزہ میں دو سو دن سے جاری اسرائیلی حملوں میں پینتیس ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں،امریکہ کی بھرپور مدد اور جدید اسلحہ کی فراوانی کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں کر سکا۔دوسری طرف عالمی برادری نے اسرائیلی کارروائیوں کو سفاکیت قرار دے کر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ان حالات میں حماس کی طرف سے آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی کا ذریعہ بن سکتا ہے،حماس کی شرط اس لحاظ سے جائز ہے کہ عشروں سے اس تنازع کو حل کرنے کی کوششوں میں متعدد بار دو ریاستی حل پر اتفاق کیا جا چکا ہے۔ اوسلو معاہدے، اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان معاہدوں کا ایک سلسلہ ہیں۔ اوسلو معاہدے نے باہمی گفت و شنید سے دو ریاستی حل کے ذریعے امن عمل قائم کیا تاہم معاہدے کے کچھ حصے ہنوز عمل کے منتظر ہیں۔سن2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے فلسطینی صدر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی۔ اسی سال مئی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو مغربی کنارے کا 66% حصہ دینے کی پیشکش کی تھی، 17% علاقے کا اسرائیل کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا، مزید 17% علاقے کا الحاق نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینی رہنما کو مغربی کنارے اور پوری غزہ کی پٹی کے 91%اور 95%کے درمیان علاقے کی پیش کش کی تھی۔اس اسرائیلی پیشکش کی شرط یہ تھی کہ مغربی کنارے کی انہتر یہودی بستیوں کی اسرائیل میں شمولیت تسلیم کر لی جائے۔ مشرقی یروشلم کازیادہ تر حصہ اسرائیلی حدود میں شامل کیا جا چکا ہے، سوائے کچھ مضافاتی علاقوں کے ،جن کے اردگرد بھاری غیر یہودی آبادی تھی۔اسرائیل نے تسلیم کر رکھا ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا مسئلہ مالی معاوضوں کے ذریعے حل کیا جائے گا۔مرحوم یاسرعرفات نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کوئی جوابی پیشکش نہیں کی۔اس کے بعد کوئی قابل عمل حل نہیں ترتیب دیاگیا جو اسرائیل اور فلسطینی عوام ، دونوں کے مطالبات کو پورا کرتا، یہاں تک کہ صدرکلنٹن نے عرفات کو کیمپ ڈیوڈ سمٹ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ جولائی 2002 میں امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس نے امن کے لیے "روڈ میپ" کے اصولوں کا خاکہ پیش کیا۔اس خاکے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست بھی شامل کی گئی۔ یہ روڈ میپ اپریل 2003 میں محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر تقرری کے بعد جاری کیا گیا ۔ دسمبر 2006 سے ستمبر 2008 کے وسط تک، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے 36 بار ملاقات کی، نچلی سطح کے مذاکرات بھی ہوئے۔ 2007 میں اولمرٹ نے عرب لیگ کی طرف سے عرب امن اقدام کی دوبارہ توثیق کا خیرمقدم کیا۔ امن معاہدے پر گفت و شنید اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اولمرٹ نے فلسطینیوں کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا۔ اولمرٹ کی تفصیلی تجویز کا محور مجوزہ مستقل سرحد ہے، جو مغربی کنارے کے بیشتر حصوں سے اسرائیلی انخلاء کے بعد حتمی شکل میں آنی تھی۔ اولمرٹ نے فلسطینی سرزمین کے کم از کم 6.3% حصے اسرائیل میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی ، اس کے ساتھ 5.8% اسرائیلی مقبوضہ علاقہ فلسطین کو دینے کی بات کی گئی، فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے ملحقہ علاقے میں متبادل اراضی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی خودمختاری کے تحت، غزہ کے درمیان مفت گزرنے کے لیے علاقائی راستہ بھی حاصل ہو گا۔ اسرائیل نے مستقبل کی فلسطینی ریاست میں اپنی سکیورٹی فورسز کی موجودگی برقرار رکھنے پر اصرار کیا۔جون 2009 میں امریکی صدر باراک اوباما کے قاہرہ خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پہلی بار مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے مشروط حمایت کا اعلان کیا لیکن اصرار کیا کہ فلسطینیوں کو باہمی مشاورت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کو یہودیوں کی قومی ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔ مستقبل کی فلسطینی ریاست کو غیر فوجی رہنا ہوگا، فلسطینیوں کو یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ یروشلم اسرائیل کا متحدہ دارالحکومت رہے گا، اور اپنے آبائی علاقوں کوواپسی کے حق کے دعوے کو ترک کرنا ہوگا۔دسمبر 2017 میں، فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات منقطع کر لیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2018 میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کر کے فلسطینیوں کے اشتعال میں اضافہ کر دیا۔ اکتوبر 2023 میں حماس نے اسرائیل میں گوریلا کارروائی کی۔ یہ کارروائی امن مذاکرات میں تعطل ، اوسلو معاہدے کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا معاملہ التوا میں رکھنے اور فلسطینیوں پر زندگی تنگ کرنے کے اقدامات کا رد عمل تھی۔اسرائیل نے نام نہاد حق دفاع کی آڑ میں نہتے فلسطینی شہریوں پر حملہ کر دیا ۔اس دوران انسانی حقوق، جنگی ضابطے اور اقوام متحدہ کا بھرم خوب بے نقاب ہوا۔امریکہ نے تین بار اسرائیل کے حق میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کی، ایک بار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر ہونے والی ووٹنگ میں ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔ان حالات میں حماس کی پیشکش ظاہر کرتی ہے کہ فلسطینی امن سے معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کو اس پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہیئے۔