حرام وحلال ایک دینی اصطلاح ہے۔ جس طرح گناہ اور ثواب ایک دینی اصطلا ح ہے۔ ا ن کے مقابلے میں دنیاوی قوانین کے خلاف ورزی گناہ کی بجائے جرم کہلاتی ہے اور پابندی کو شرافت کا نام دیا جاتا ہے ۔صحیح اور غلط کا تعلق دنیا اورآخرت دونوں سے یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ دینی تعلیمات کے مطابق صحیح عمل حلال اور غلط کام حرام کہلاتا ہے جبکہ دنیاوی قوانین کے مطابق صحیح قانون کی پابندی اورغلط کام جرم بن جاتاہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف معاشروں ، مذاہب یا خطوں میں حرام وحلال ،روایات ، نظریات اور عقائد او رضروریات کے مطابق نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے بلکہ اکثر اوقات موقع بہ موقع بدلتی بھی رہتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دنیاوی قوانین پارلیمان یاحکومتیں بناتی ہیں جبکہ مذہبی قوانین اٹل ہونے کے باوجود ہر مذہب وملت کے عقائد اور ہدایات کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ یہی اختلافات باہمی شروفساد اور جنگ وجدل کو بھی برپا کرتے ہیں۔ تاریخ انسانی انہی تباہ کن معرکوں کے باعث ہمیشہ سے خون آشام رہی ہے ۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں ’’میں ایسی دنیا کا کیا کروںجس کے حلال میںحساب اورحرام میںعذاب ہے‘‘ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا ۔کیوں ؟ اسلئے مسلمان اپنی سادگی میں بڑے بڑے گناہوں ۔مثلاً چوری ، رشوت ،قتل ،زنا، چغل خوری ،غیبت اوربہتان تراشی وغیرہ کو ہی حرام سمجھتا ہے۔ کھانے پینے میںشراب پینا اور سور کاگوشت کھانا ہی حرام سمجھا جاتاہے، جبکہ بھوکے اور بیمار پڑوسی کے بلکتے بچوں کی موجودگی میںحلال خوراک بھی حرام بن جاتی ہے۔ لندن کی گلیوں میںرات گئے ۔بغل میںگوری دبا ئے نشے میں چور جب کوئی عربی نوجوان ’’کیایہاں حلال فوڈ ملتاہے‘‘ ؟ کانعرہ لگاتا ہے توڈھابے والے انگریز کی سمجھ میںنہیں آتا کہ وہ خود کیا ہے، عربی کیا ہے اور مسلمان کیا ہوتاہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اپنی سمجھ ،وہم یا خواہش کے مطابق راسخ ا لعقیدہ مسلمان خلوس نیت کے ساتھ سمجھتے ہیںکہ دبئی میں حالیہ بارشوںسے تباہی وبربادی غزہ کے قتل عام پر مسلمانوں کی مجرمانہ خاموشی اوربے حسی کا شاخسانہ تھی یا پھر توحید کے ماننے والوں کے دیس میںایک بہت بڑے اور عالیشان مندر کی تعمیر کا عذاب تھا۔ دونوںصورتوں میںایک حلال دوسرے کا حرام ایک کا ثواب دوسرے کا گناہ اور ان دونوں سے بڑھ کر تیسرے کی خوشی یامفاد بن جاتا ہے۔ ’’رب دیا ں رب ہی جانے ‘‘ حرام میںرغبت ہے اورحلال میںمشقت۔ حلال میںعزت اور حرام میںذلت ، حلال میں بھرپور توانائی اورطاقت ہے جبکہ حرام میںکمزوری اورنکاہت، حلال میںفتح اور حرام میںشکست ہے، حلال حق ہے اور حرام باطل ۔ حلا ل میںزندگی اور حرام میںموت ہے۔ حلال میں نجات ہے اور حرام دائمی عذاب ۔ حلال وحرام دونوں غائب ہیںلیکن ہر بات ہرچیز میںہر وقت اور ہر جگہ عیاں بھی ہیں ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حرام وحلال کا فیصلہ کرنے والا منصف ’’گواہ بھی خود ہی ہے‘‘ ایک دفعہ ذاکر علی زیدی (مرحوم) اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا ’’میں بے ایمان نہیں ہوں لیکن میںایماندار بھی نہیں ہوں‘‘ میرے پوچھنے پر فرمایا ’’میں اس لئے بے ایمان (DISHONEST) نہیںہوں کہ میں رشوت نہیں لیتا ، سرکاری مال میںہیرا پھیری نہیں کرتا، چوری نہیں کرتا ،شراب نہیں پیتا اور دیگر برے کام نہیںکرتا لیکن ایماندار (HONEST) بھی نہیں ہوں کیونکہ میرے گھر میں دواردلی کام کرتے ہیںجبکہ مجھے ایک اردلی کی سہولت حاصل ہے۔ میں دفتر کا ٹیلی فون اپنے ذاتی کاموں کے لئے بھی استعمال کرتاہوں۔ مجھے سرکاری کاموںکیلئے سواری دی گئی ہے جسے میرے بیوی بچے بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ اس لئے میںخود کو اور ایماندار نہیں سمجھتا‘‘ یہ تو بھلے وقتوں کے جنرل صاحب لوگ تھے لیکن اس سطح اورمرتبے پرآج کے حلال وحرام کے پیمانے ہر گزوہ نہیں رہے کیونکہ دنیا بدل چلی ہے ، حالات بدل چکے ہیں اور سب سے بڑھکر مسلمان بدل چکے ہیں۔ بغداد میں کمرشل سیکرٹری کی حیثیت سے تعیناتی کے بعدپتہ چلا کہ پاکستان سے درآمدات پرپابندی لگانے والوںنمایاں شخصیت اُس وقت کے عراقی وزیر خزانہ پر وفیسر مخلف تھے۔ لہذا سفیر محترم کے ساتھ موصو ف سے اس پالیسی کو بدلنے کے لئے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا وقفے وقفے سے ان کے ساتھ تین تفیصلی ملاقاتیں ہوئیں جن میںعراق پاکستان کے تجارتی معاملات کے علاوہ سب سے زیادہ وقت انھوں نے اس بات پر زور دینے میںصرف کیا کہ پاکستانی عربی زبان نہ جاننے کے باوجود شراب کو کیوں حرام سمجھتے ہیں۔ اس زمانے میںعراق میں ہر چوتھا ریسٹورنٹ میں ایک شراب خانہ بھی تھا۔ جب ہمارے ایک وزیر اعظم نے سنگا پور کے آنجہانی رہنما لی کوان یو سے پاکستان کیلئے کوئی نصیحت مانگی توانھوں نے کہا ’’میں ایسے لوگوںکو کیا نصیحت کرسکتا ہوں جنکا ایمان ہے کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ دوسرے لوگ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں اور مسلمان کیسے آخرت کا مذاق اُڑاتے ہیں ۔ 1963 میں جب سنگا پور آزاد ہواتو لی کوان یو کے مطابق قومی قیادت نے دوباتوں میںسے ایک کا فیصلہ کرنا تھا۔ ’’آیا ہم نے امیر ہونا ہے یا سنگاپور نے امیر ہونا ہے‘‘ فیصلہ سنگا پور کے حق میںہوگیا۔ لہذا آج لالو کھیت جتنے ملک سنگا پور میں فی مربع انچ ارب پتی لوگوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔غالباً ہماری قیادت نے چونکہ پاکستان کی بجائے فیصلہ اپنے حق میںکیا تھاسی لئے ہم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں جیسے تسلیم شدہ بین الاقوامی بھکاری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ زوال پذیر قومیںاپنی انفرادی اور اجتماعی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں ہی وقت گذاردیتی ہیں۔ ایسی گھر گھر کی اورروز مرہ کی چپقلیش ،حسد،بغض ،عداوت اورکمینگی کے علاوہ تکبر اور نخوت کو پروان چڑھاتی ہیں یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غرور اورتکبر صرف رب تعالیٰ کوہی زیب دیتا ہے یہ مخلوق کے ہر مرتبے ، شان وشوکت اور کروفر کوآخر کار ملیامیٹ کر دیتا ہے ۔نمرود، فرعون،شداد اور شیطان مردود جیسے کردار سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ نہیں کماتے ۔ کیوں ؟ اسلئے کہ ان کی عقلیں مائوف ،آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہوجاتے ہیں اپنی طاقت کے نشے میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ابرہہ کا لشکر ابابیلوں سے تباہ ہوجاتا ہے اور ہاتھی کی موت چیونٹی کے ہاتھوں ہوسکتی ہے۔ تکبر عزیز ترین رشتوں کو بھی کھا جاتا ہے تکبر دولت ،ثروت اور شہرت پرکیا جاتاہے جو آنی جانی ہوتی ہیں ہم میں تو ایسے مضحکہ خیز لوگ بھی موجود ہیںجو ان کے بغیر بھی غرور وتکبر کاشکار رہتے ہیں ۔میں نے ایک غسال کو اس قدرمتکبر دیکھا کہ یو ںلگا جیسے اسکے علاوہ سب نے مرنا ہے یہی وجہ ہے کہ صلہ رحمی حلال اور قطع رحمی حرام قراردی گئی ہے۔ خدا ہمارا حامی وناصرہو۔ آمین۔