چند ماہ قبل ایک جاننے والے سی ایس پی آفیسر کے ہمراہ کسی ڈیپارٹمنٹ کا گزٹڈ آفیسر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ فلاں سیکرٹری صاحب آپکے دوست ہیں انکو سفارش کروانی ہے کہ مجھے فلاں جگہ پر پوسٹ کردیں ۔میں نے سیکرٹری کو ٹیکسٹ کیا کہ بھائی ایک دوست کی ریکوئسٹ ہے اسکو دیکھ لیجئے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پہلے بھی دس جگہ سے سفارش کروا چکا ہے۔ مذکورہ سیٹ پر پہلے والا بندہ اچھا کام کررہا ہے اسکو کہیں اور لگا دیتا ہوں۔میں نے اس بندے کو بتایا کہ سیکرٹری صاحب پہلے آفیسر سے کافی مطمئن ہیں آپ کو کہیں قریب ہی پوسٹ کردیں گے وہ بھائی صاحب جذباتی ہوگئے کہ ہماری لابی کے بندوں کو انہوں نے ہماری فیورٹ اور ’’کام کی جگہ‘‘ سے ہٹا دیا ہے ۔جو بھی سیکرٹری آتا تھا اس سے سیٹنگ کرکے ہم بھی خوش اور سیکرٹری بھی خوش، یہ کچھ زیادہ ہی ایماندار بندہ ہے پیسے نہیں لیتا اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ شائد تعلق واسطے میں مان جائے گا کوئی بات نہیں اس کو مرضی کرلینے دیں ہم سیکرٹری کو ٹرانسفر کروا دیں گے۔اس کی یہ باتیں سن کر مجھے افسوس ہوا کہ ایسے بندے کی سفارش کیوں کی۔ خیر میں نے سیکرٹری کو کال کی میری سفارش واپس سمجھیں اس بندے کے کنسیپٹ شدید کلئیر ہیں۔کچھ دن بعد واقعی سیکرٹری ٹرانسفر ہوگیا اور سارے افسران اپنی پوزیشن پر واپس۔ اسی طرح لاہور کے ایک بدنام زمانہ ٹھیکیدار نے بزدار حکومت میں مرضی کے ٹھیکے نہ دینے پر سیکرٹری ہیلتھ ٹرانسفر کروا دیا تھا۔ گریڈ انیس سے اکیس تک مسلسل نو سال میں سب سے زیادہ وقت تک سیکرٹری ہیلتھ رہنے والے صاحب نے سیکرٹری ہیلتھ کی سیٹ کو اپنے علاوہ سب کیلئے نو گو ایریا بنا دیا ہے۔کیونکہ وہ سب کو ساتھ ملا کر چلنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے پنجاب کے ہسپتالوں میں مفت ادویات دستیاب نہیں ،میڈیسن اور دیگر آلات کی خریداری کے اربوں روپے کے بلز پینڈنگ ہیںجس وجہ سے غریب باہر سے ادویات خریدنے اور ٹیسٹ کروانے پر مجبور ہیں جبکہ کھربوں روپے رینویشن اور رنگ روغن میں اڑادیے گئے۔لوکل پرچیز میں من پسندٹھیکیداروں کی چاندی ہے ۔سونے پر سہاگہ سینٹرل پرچیز کے نام پرپنجاب کی ٹوٹل خریداری میں سیکرٹری آفس سیاہ و سفید کا مالک بن چکا ہے۔ثبوتوں کے ساتھ متعدد شکایات ہیں کہ سینٹرل پرچیز میں من پسند افراد سے مہنگے داموں خریداری کی جارہی ہے۔ ایک اے ڈی سی آر کے بارے مشہور تھا کہ وہ اس دور کے وزیر اعلیٰ کا کار خاص ہے اس لیے جونئیر ہوتے ہوئے بھی ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کی اہم سیٹ پر سیاہ و سفید کا مالک بن کر سرکاری زمینوں پر قبضے کروانے اور عام افراد کا جائز حق بھی رشوت کے بغیر نہیں دیتالیکن کوئی اس کو ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔اس کے ایک بیچ میٹ نے واقعہ سنایا کہ میں نے اسے کہا کہ تم وزیر اعلیٰ کے کارخاص ہو مجھے سب رجسٹرار ہی لگوا دو تو اس نے جھٹ سے پہلے کہا کہ پچاس لاکھ روپے لائو لگوا دیتا ہوں ،سب رجسٹراری پیسے اکٹھے کرنے والی سیٹ ہے ۔مذکورہ ای ڈی سی آر اتنا بااختیار افسر بن گیا کہ معمولی تکرار پر اپنے سینئر بیچ کے افسران کو ٹرانسفر کروادیا۔اسی طرح کچھ سینئر پولیس افسران نے اپنے کارخاص ایس ایچ او رکھے ہوئے ہیں جن کو وہ اپنی ہر تقرری میں ساتھ لے جاتے ہیں۔ وزراء اور چیف منسٹر کے درباری بنے ’’باس از آلویز رائٹ اور یس باس‘‘ کی تسبیح کرتے افسران جی حضوری کے چیمپئین ہونے کی وجہ سے ہر حکومت میں ’’فٹ‘‘ ہو جاتے ہیں اور نہ صرف من چاہی پوسٹنگ لیتے ہیںبلکہ فیصلہ سازوں کی آنکھ کا تارہ بن کر صوبے اور ڈیپارٹمنٹ کے لئے ’’اچھے افسران ‘‘سلیکٹ کرنے کی ٹھیکید اری بھی حاصل کرلیتے ہیں۔’’سر یو آر مائی انسپائریشن ‘‘کے نعرے لگاتے چاپلوس اور ’’کنسیپٹ کلئیر‘‘ افسران کو’’ ملٹی ٹاسک اچیور اور ڈوئیر‘‘ کا نام دے کر حکمرانوں کے دربار میں پیش کرکے اہم پوزیشن دلوائی جاتی ہیں۔اہم کام نکلوانے کیلئے چھوٹے افسران کو بڑی سیٹوں پر تعنیات کیا جاتا ہے۔سدا بہار ڈی پی او /ڈی سی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ صرف وہی کام کرتے ہیں جس کی پرچی ایم پی اے / ایم این اے بھیجتا ہے۔ شدید کرپٹ افسران کی سب سے بڑی نشانی ہے کہ کال رسیو نہیں کرتے کہ کہیں کسی سفارشی کال پر مفت میں کام نہ کرناپڑ جائے۔ نئے آنے والے افسران کی اکثریت کا مائنڈ سیٹ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے اور جھولیاں بھر بھر کے سمیٹنا ہے۔مافیا کس قدر بااثر ہے کہ سینئر افسران اور وزراء کو پاکٹ میں رکھتا ہے کہ اگر کسی آفیسر کو ایمانداری کا بخار ہو تو بخار اتارنے کیلئے اسے سیٹ سے اتار پھینکتا ہے۔یہی وجوہات ہیں کہ دیانت دار افسران ناپید ہوتے جارہے ہیں۔اہم جگہوں پر تعینات کرپٹ افسران نے انکا نام’’مسکین لوگ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ایماندار افسران کی اہم جگہوں پر یہ کہہ کر تقرری نہیں کی جاتی کہ’’ اس کو افسری نہیں آتی اسے رہنے دو‘‘۔ ’’بندہ کمپیٹنٹ ہے لیکن زیادہ ایماندار ہے‘‘۔بندہ ٹھیک ہے مگر سسٹم کے ساتھ چلنے والا نہیں۔’’بندہ ٹھیک اے لیکن بڑا کتابی اے ‘‘۔