سوسائٹی فار پریوینشن آف بلائنڈ نیس اینڈ کیور والے حیران تھے کہ پچھلے لگاتار تئیس برسوں سے بادشاہ پور میں لگنے والے آئی کیمپ کا کوئی آنکھ کا ایک آپریشن بھی ناکام نہیں ہوا ہے نہ کسی مریض کی بینائی کا کوئی مسئلہ درپیش آیا ہے۔ حیرت ہے ورنہ کیمپ سرجری میں کچھ مسئلہ درپیش آنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا خاص کرم تو ہے۔ کیا یہ کیمپ انتظامیہ کے بے لوث ہونے کا نتیجہ ہے یا اس کامیاب کیمپ کے پیچھے کوئی خاص حکمت عملی ہے۔ تب ان کو بتایا گیا یہ کیمپ بادشاہ پور ویلفئیر آرگنائزیشن کی جانب سے لگتا ہے یہ این جی او کسی قسم کی امداد کی طالب تو کیا روادار بھی نہیں۔ یہ اہلِ دیہہ کی مشترکہ محبت تھی اب مشترکہ میراث ہے۔ یہ کیمپ اپنی مدد آپ کے تحت لگتا ہے۔ غریبوں ، بے آسرا اور نادار لوگوں کے لیے لگایا جاتا ہے جہاں نہ صرف عدسے مفت لگائے جاتے ہیں بلکہ تین روزہ کیمپ کے دوران تمام مریضوں اور ان کے لواحقین کے خوردونوش کے علاوہ ان کے مفت قیام کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ کیمپ بادشاہ پور میں ہر سال لگتا ہے۔ یہ ایک غربت کی پٹی ہے جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے بیچ سینکڑوں دیہات پر پھیلی ہوئی ہے وہیں کے نادار لوگوں کے لیے یہ آئی کیمپ لگایا جاتا ہے۔اب تک اس سالانہ آئی کیمپ میں تین ہزار سے زائد لوگوں کی بینائی واپس آئی ہے۔یہ ایک فلاحی سرگرمی ہے جسے اب پورے بادشاہ پور نے اون کر لیا ہے۔بادشاہ پور ویلفئیر سوسائٹی اور ویلفئیر کمیٹی محمد اشرف گوندل ایڈووکیٹ اور ان کے ساتھیوں کے تعاون کی ایسی مثال کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ لاہور اور بادشاہ پور ضلع منڈی بہاء الدین کے درمیان تین سو کلو میٹر کا سفر ہے۔ لوڈر کے ڈرائیورز، ڈاکٹرز، ان کے امدادی عملہ اور تمام آنے والے مریضوں کے خوردونوش کا بھی اہتمام کرنا ہوتا ہے اس میں لوکل اور یہاں لاہور کی سطح پر دو ٹیموں کو کئی دن پہلے ہی متحرک ہونا پڑتا ہے۔اس ابتدائی تیاری سے پہلے آئی کیمپ کے انعقاد کے لیے باقاعدہ تاریخ کی دستیابی کے بعد ایک مرحلہ ملک کے مایہ ناز آئی سرجن اور میو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر اسد اسلم کمال محبت اورشفقت سے وہاں آپریشن کرنے والے ڈاکٹرز کی ڈیوٹی لگانا ہوتی ہے تا کہ آپریشن اور آئی کیمپ کے دن کسی قسم کی پریشانی کا خطرہ نہ مول لیا جائے اور جو ٹائم ٹیبل دے دیا گیا ہے اس سے نہ کیمپ کی انتظامیہ اور نہ سوسائٹی اور نہ ہی آنکھوں کے آپریشن کرنے والے ڈاکٹرز انحراف کریں۔ ایک لگے بندھے ضابطے کے تحت کام احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچے۔ Society For Prevention of Blindness And Cure and care کا لاہور میں آفس ہے اور یہ سوسائٹی نادار اور لاچار مریضوں کے لیے آنکھوں کے آپریشن کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں آئی کیمپس کے انعقاد میں تعاون بھی کرتی ہے اور آئی کیمپ کے لیے تمام ضروری سامان فراہم بھی کرتی ہے اس کے روح رواں رضوی صاحب ہیں جن کا کام ہی آنکھوں کے مرض اور بالخصوص اندھے پن سے بچاؤ کرنا ہے۔آنکھیں کتنی بڑی نعمت ہیں یہ وہی جان سکتا ہے جس کو کبھی بینائی یا آنکھ میں کسی بیماری سے واسطہ پڑا ہو۔ اس پر یہ کام صرف خدا کی خوشنودی اور عام آدمی کی بھلائی کے لیے ہو تو اس کی داد و تحسین تو بنتی ہے اگرچہ ان کی خدمات کا کما حقہ اعتراف کیا ہی نہیں جا سکتا۔پھر یہ فلاحی کام ایک سال پانچ سال یا دس سال سے نہیں پچھلے پچاس برسوں سے کامیابی سے جاری رکھنا کوئی آسان کام نہیں اس کام میں کمریں دوہری ہو جاتی ہیں اور سانسیں اکھڑ جاتی ہیں مگر جب سارا کام، ساری دوڑ دھوپ ایک اللہ کی خوشنودی اور عام آدمی کی بھلائی کے لیے کی جا رہی ہو تو اوپر والا حوصلہ بھی عطا کرتا ہے اور انتظامات کرنے کی استطاعت بھی بخشتا ہے اور توفیق بھی۔ پچھلے تئیس سالوں سے یہ آئی کیمپ ہر سال قبلہ والد سراج قادری کی یاد میں لگایا جاتا ہے۔ خود ستائی نہ ہو تو کہوں کہ قبلہ والد نے اس ضلع میں جہالت اور غلط رسم و رواج کے خلاف ساری زندگی جہاد کیا۔وہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں روشنی کا سمبل ہیں۔علم کی لو کی والہ و شیدا عوام کی خدمت کے جذبے سے بھری پری ایک عوام دوست عظیم شخصیت۔ بادشاہ پور جہاں یہ مفت کیمپ لگتا ہے اس کے مالی تعاون میں وہاں کا غیر ممالک میں مقیم نوجوان طبقہ بھی بہت جذبے سے اس میں حصہ لیتا ہے اور دامے درمے سخنے مدد بھی کرتا ہے۔ انہوں نے اس علاقے کی افلاس کا خود مشاہدہ کیا ہوا ہے سو دو دوستوں کا ذکر لازمی ہے جن کا تعاون قابل قدر ہے۔ ان میں ایک برطانیہ میں مقیم وکیل صفدر علی ہیں اور دوسرے نیویارک میں مقیم نصر اقبال گوندل ہیں ان کی مساعی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مریضوں کے قیام اور ان کے خوردونوش کا سارا سلسلہ انہی کے دم سے ہے کہ وہ اسی غربت اور پسماندگی کے خود شاہد ہیں۔ اس علاقے میں غربت، دھول دھوپ اور صحت اور صفائی کی عدم سہولیات کی وجہ سے آنکھوں میں موتیا آنے اور اندھے پن کے اتنے مریض بڑھ سکتے ہیں جن کا شمار کرنا بھی دشوار ہو سکتا ہے غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک بوڑھی مریضہ جس کو آپریشن کے لیے تھیٹر میں لے جایا جا رہا تھا اس بڑھیا کی حالت یہ تھی کہ جب اسے آپریشن تھیٹر لایا جا رہا تھا تب بھی اس نے اپنی بوسیدہ اور ٹوٹی ہوئی چپل ہاتھ میں تھامے ہوئی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اس کی چپل کھو نہ جائے جب اسے سٹریچر پر ڈالا گیا تب بھی اسے آنکھ سے زیادہ اپنی ٹوٹی پھوٹی چپل کی فکر زیادہ تھی۔اس کیمپ کے کامیاب انعقاد کے لیے اس کیمپ کے روح رواں صاحبزادہ توقیر احمد فائق، ڈاکٹر تنویر احمد شائق اور میاں وقار عظیم کی خدمات لائق ِ صد تحسین ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭