یہ درست ہے کہ حالات کے جبر نے جستہ جستہ متروک ہوتے پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمارے شتابی الیکٹرانک میڈیا کا بانکاپن بھی عین عنفوانِ شباب میںچھین لیا ہے۔کچھ مجبوریاں قابلِ فہم ہیں۔ کئی معاملات میں بے حسی کی تاویل مگر کیا ہے؟ جمعۃا لمبارک کا دن وطنِ عزیز پر بہت بھاری گزرا ہے۔صرف ایک دن میں ہم نے بیسیوں بے گناہ پاکستانیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ ٹی وی دیکھے اب دن نہیں ہفتوں بیت جاتے ہیں۔اُس ایک سرخ شام سوچاٹی وی کھولتے ہیں۔ ضرورتمام بڑے ٹی وی چینلز نے اپنے’ لوگو ‘شہداء سے یکجہتی کے اظہار میں سیاہ کر رکھے ہوں گے۔شہیدوں کی باتیں ہو رہی ہوں گی۔ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات پر بات چیت ہو رہی ہوگی۔کچھ اور نہیں تو دو چار ہی سہی، چندپڑھے لکھے میزبان اپنے سٹوڈیوز میں مہمانوں کو لئے معیشت پر سرجوڑے بیٹھے ہوں گے۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے، زیادہ شائستہ مزاج،جمہوریت ،جمہوری اداروں کی زبوں حالی اورا نسانی حقوق کی صورتِ حال پر دل گرفتہ ہوں گے۔ ٹی وی کھولا ۔پرائم ٹائم ہے۔ پہلا چینل۔موضوع زیرِ بحث ہے، نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس آرہے ہیں یا نہیں؟ دوسرا چینل ۔ چارمعتبر نام بیٹھے ہیں۔سوال کیا ہے؟ میاں صاحب کا بیانیہ کیا ہوگا؟اگلے چینل پر زیرِ بحث ہے،کیا میاں صاحب کا بیانیہ اب بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی ہو گایاکہ نہیں؟ صاحب،یہ تو بتائیے کہ آخرآپ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کیا محض دو چار شخصیات کا نام ہے؟ کیا ادارے کواِن دو چارشخصیات سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ آپ یہ غلطی بار بار کیوں دہراتے ہیں؟لندن میں کی جانے والی پریس کانفرنس اور پاکستان میں رانا ثناء اللہ جیسوں کی طرف سے وہاں کہی گئی باتوں کا اعادہ ،اب تو احمقانہ پن بھی نہیں، سرا سر منافقت کہلائے جانے کے قابل ہے۔اب جس کسی کے پاس کوئی اورسودابیچنے کو نہ رہے توکیااینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لے کر بازار میں نکل آئے گا؟اسٹیبلشمنٹ پر چڑھ دوڑے گا؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کسی بندوق، توپ، ٹینک یا جہاز کا نام ہے؟ بھائی، اس نگری میں جیتے جاگتے انسان بستے ہیں۔ احساسات سے جو عاری نہیں۔ اپنے جیسے زندہ انسانوں کے دھڑکتے جسموں سے بہتے خون کی حدت کو جو آئے روزاپنی انگلیوں کے پوروں پر محسوس کرتے ہیں۔ردعمل غیر معمولی تھا۔ پیغام رسانی کے ذرائع بیسیوں دستیاب تھے۔ اگلی ہی فلائٹ سے لاد کر چھوٹے بھائی کو جوبھیجا گیا تواس سے زیادہ واضح زبان میں بات سمجھائی نہیں جا سکتی تھی۔ زبانوں نے وقتی طور پر زہر اگلنا روک دیا ہے۔ کیا نیت کا کھوٹ بھی دور ہو گیا۔ ہر گز نہیں۔ ایک دوسرا بڑا مسئلہ جو ٹی وی چینلز پر زیرِ بحث دکھائی دیا گیا وہ ایک مشہور ٹی وی ٹاک شو میں شامل مہمانانِ گرامی کا آپس میں گالم گلوچ کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھا پائی پر اتر آنا تھا ۔دیکھا جائے تو ایک طرح سے یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں ایسے درجنوں واقعات کو گوگل کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تو اکثرسستے ٹاک شوز میں شامل مہمانوں کوآپے سے باہر ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم حالیہ واقعے کا دلچسپ پہلونا صرف آپس میں الجھنے والے دو مہمانانِ گرامی بلکہ خود پروگرام کے میز بان کا انوکھا طرزِ عمل رہا۔ سینٹرصاحب اوردوسری جانب جو وکیل صاحب ہیں، دونوں نسبتاََجوان ہیں ۔خون گرم ہے اور جذبات بر انگیختہ۔ دونوں کے حمائیتی اب اگرسوشل میڈیا پر یہ ثابت کرنے پر جتے ہیں کہ کس کا پہلوان کشتی جیتا، تو ان کا طرزِ عمل بھی قابلِ فہم ہے۔ حیرانی ہوئی تو مذکورہ ٹی وی پروگرام کے میزبان کے رویئے پر۔ حضرت اگر زیرک اورتجربہ کار نہیں تو کم ازکم ایک پرانے صحافی توکہلائے جا نے کے قابل ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ان کے کسی پروگرام میں ایسا ماحول بنا ہو۔چنانچہ ان صاحب کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا رہا ہے کہ وہ ریٹنگ یا سستی شہرت کے لئے جان بوجھ کر اپنے اسٹوڈیو میں ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ اگر یہ تاثر کسی حد تک غلط تھا بھی تو تازہ ترین واقعے کے بعد جزئیات کی کڑیوں کو ملا کر دیکھا جائے تو صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ نہ صرف انہوں نے اپنے ا سٹوڈیو میں صورت حال کو بے قابوہونے دیا بلکہ بعد ازاں اس ایک واقعے کو ’ کیش ‘کرانے میںبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہماری طرف سے اس ایک واقعہ کو ایک قومی اخبار کے لئے لکھے گئے کالم کا موضوع ہر گز نہ بنایا جاتا، تاہم اندریں حالات توجہ میڈیا سمیت قومی رویوں میں سنجیدگی کے اُس فقدان کی طرف مبذول کروانا مقصود ہے کہ جو ملک میں جاری بے یقینی ، تلخی اور انتشار میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ وطنِ عزیز میںہر ادارے کی طرح، اسٹیبلشمنٹ کو بھی کڑی آزمائش کاسامنا ہے۔ اس حقیقت سے نظریں چرانا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ جو اہم عہدوں پر تعینات ہیں ان کے پاس ہم جیسوں سے کئی گنا زیادہ معلومات دستیاب ہیں۔ دستیاب معلومات کے سائینسی تجزئیے کے ذرائع موجود ہیں۔ اور انہی نتائج کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طے کئے جانے کا مربوط نظام بھی موجود ہے۔ضرور وہ مسائل سے آگاہ ہیں۔ہماری نظر میں توامن و امان سمیت ملکی سلامتی کو لاحق خطرات اورمعیشت کی بحالی کے علاوہ آئین و قانون کی عملداری ، تین بڑے چیلنجز ہیں ۔قرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ یہ پانچویں جنریشن ہے، چھٹی ہے یا ساتویں ، ہم نہیں جانتے۔ یہ جنگ اب ہماری بقاء کی جنگ ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت کوئی ایک فریق اس پوزیشن میں نہیں کہ تنِ تنہا پہاڑ جیسے مسائل سے نبرد آزما ہو سکے۔ایک حالیہ سروے کے نتائج جس قدر بھی متنازع ہوں، ایک حقیقت بہرحال پہلے سے طے ہے کہ افواجِ پاکستان پر پاکستانی عوام کو آج بھی غیر معمولی بھروسہ ہے۔اسی سروے کے مطابق دوسری جانب ملک کی ایک مقبول ترین سیاسی جماعت کھڑی ہے۔مقبول ترین سیاسی جماعت اور معتبر ترین ادارے کے مابین بد گمانیوں کا خاتمہ وقت کی اولین ضرورت ہے۔ضروری ہے کہ خاص رویوں کو سمجھنے کے لئے اُس خاص جگہ پر کھڑے ہو کر سوچا جائے۔ مدتِ ملازمت میں توسیع کے پیچھے احداف کیا تھے،رانا ثناء اللہ کے حالیہ اعترافات میں نیا کیا ہے؟ ضروری ہے کہ واحد قومی جماعت کو کمزور کئے جانے کی بجائے اسے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ سیاسی جماعتیںآئے روز نہیں بنتیں۔قومی اداروں کو کھڑا کئے جانے میں توعشروں درکار ہوتے ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں اکثریت پانے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اگر حکومت بناتی ہے اورگیلپ سروے کے مطابق معتبر ترین قرار دیئے جانے والا ادارہ اُسی منتخب حکومت کی پشت پر کھڑا ہو جاتا ہے توکیا یہ ہائبرڈ رجیم ہو گا؟کیا ایسا کوئی بھی ہائبرڈ رجیم غیر آئینی ہوگا؟کیا جمہوری راستے سے وجود میں آنے والا ہائبرڈ رجیم کسی غیر مقبول اور غیر نمائندہ بندوبست کو ملک پر مسلط کئے جانے سے کہیں بہتر نہیں ؟