تھا پیار کا یہ تقاضا وفا کے ذکر کے بعد ہوا درود جو لازم خدا کے ذکر کے بعد مناسبت سے ہر اک شے وجود رکھتی ہے مہک گلاب کی آئی صبا کے ذکر کے بعد اصل میںمجھے ایک سیرت کانفرنس کا تذکرہ کرنا ہے جو مرغزار کالونی میں جماعت اسلامی نے منعقد کی۔ساتھ ہی ختم قرآن کا ذکر کہ قاری فضل دین صاحب غوثیہ پارک میں درجنوں لوگوں کو قرآن پاک گرائمر کے ساتھ ختم کروا چکے ہیں۔تیسرا پروگرام رانا سہیل نے چراغ مدینہ مسجد میں سیرت پر رکھا ہوا تھا۔ گویا مرغزار کے طول و عرض میں سیرتؐ کا بیان ہو رہا تھا اور فضا تھی کہ جس میں تقدس کی خوشبو تھی۔میں ان تقاریب کا حصہ تھا اور کچھ بتائوں گا بھی مگر اس سے پہلے مجھے ایک قرآنی نشست کا تذکرہ بھی تو کرنا ہے۔ سچ مچ ایک بات بہت غور کرنے کی ہے کہ جب ہم قرآن اور صاحب قرآن کا حوالہ دیتے ہیں تو علم و عمل کی بات کرتے ہیں۔علم الکتاب اور عمل حضور پرنور ؐ ہم آپؐ کی شریعت پر کاربند ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے بس یہیں پر ایک نکتہ سمجھنے والا ہے کہ یہ لوگ جو وحدت ادیان کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ اس میں کسی اور کے لئے کچھ ہو سکتا ہے کہ جو مختلف ادیان پر یقین رکھتے ہیں ہم وحدت دین کے قائل ہیں ہمارے لئے اسلام ہی وہ دین ہے کہ جو تسلسل کے ساتھ حضرت آدم سے چلا آ رہا ہے۔ آپ اسے اس طرح دیکھیں کہ دین موسوی‘ دین محمدیؐ یا دین عیسوی کہنا غلط ہے۔دین تو سب کا ایک ہی تھا۔وحدت ادیان ہماری اصطلاح نہیں ہے دین ہمارا ایک ہی ہے سب اللہ ہی کا پیغام لے کر آئے۔یعنی یہ صداقتیں ہیں جو ہمیشہ سے چلی آ رہی تمام انبیا انہی کی طرف بلاتے رہے۔اس کا طریقہ کار اپنے اپنے وقت کے مطابق تھا یعنی شرائع مختلف رہی ہیں۔ چلتے چلتے ایک اور بات بھی دیکھ لیں کہ مذہب بھی دین کے مترادف نہیں ہے۔مذہب فقہ کے حوالے سے ہے مذہب کی توتبلیغ بھی جائز نہیں۔صرف دین کی تبلیغ ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے پروگرامز کی طرف۔ سیرت کانفرنس اچھے پیمانے پر تھی اور اس کے روح رواں ملک شفیق صاحب اور کالونی کے صدر چوہدری محمد شہزاد چیمہ تھے۔ میں وہاں پہنچا تو امیر العظیم صاحب کو خطاب کے لئے بلایا جا چکا ہے انہوں نے سیرت کے بیان میں بہت اچھی گفتگو کی۔ ہمارے لوگوں کو عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یقیناً حضور اکرمؐ کے لئے محفلیں سجانا جشن منانا یا کوئی اور صورت پیدا کرنا اپنی جگہ ضروری ہے مگر آپﷺ کی سیرت کو معاشرے میں اتارنا اور حکومت کو مجبور کرنا کہ اس کو رواج دے زیادہ اہم ہے انہوں نے بالکل درست کہا کہ دین کا داخلہ بڑی سازش کے ساتھ ہر جگہ بند ہے۔۔سود کی لعنت ہے۔ ایوان بالا میں اسلام کا گزر نہیں‘ اگر کہیں مجبوری کے ساتھ اسلام کی تھوڑی بہت شکل نظر آتی ہے تو وہ فرمائشی اور نمائشی ہے آپ ہمارے نمائندوں ہی کو دیکھ لیں وہ اسمبلی میں کیا کرتے پھرتے ہیں سوائے اقتدار اور اختیار کے علاوہ انہیں کچھ نہیں چاہیے۔ اس سیرت کانفرنس میں ایک چیز دیکھنے کو ملی کہ اس کا انتظام و انصرام جماعت کے یوتھ ونگ نے سنبھالا ہوا تھا۔اچھی بات ہے کہ یہ جماعت نوجوانوں کی تربیت کر رہی ہے انہیں قرآن و سنت کی طرف لا رہی ہے جہاں تک مجھے علم ہے کہ ان میں درس قرآن اور تربیت کا باقاعدہ انتظام ہے اچھی بات ہے کہ نوجوانوں کا ذھن مثبت سرگرمیوں میں جلا پاتا ہے۔اب تو ان میں سوشل سرگرمیوں اور کھیل وغیرہ کو ڈال دیا گیا ہے وہاں ان کو انعامات بھی دیے جار ہے تھے۔ وہاں انور گوندل صاحب بھی موجود تھے انہوں نے خطاب بھی کیا ایک خطاب مولانا عزیر الرحمن کا تھا خاص طور پر میاں نعیم صاحب کا ذکر خیر ہوا کہ انہوں نے مرد و خواتین کے لئے کئی جگہ پر درس قرآن کا اہتمام کر رکھا ہے۔ان کا پورا خاندان قرآن کے ساتھ جڑا ہوا ہے پھر قاری فضل الدین جو برسہا برس سے پارک میں لوگوں کو صرف صرف گرائمر اور ترجمے سے مستفید کرتے ہیں کچھ لوگ تو آگے بھی درس دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس میں نعت شریف بھی پڑھی گئی اور محمد شہزاد چیمہ صاحب نے اختتام پر سب شرکا کا شکریہ ادا کیا سب آنے والوں کے لئے کھانے کا انتظام تھا۔ ہم تو چیمہ صاحب کے ساتھ ہی چراغ مصطفی مسجد چلے گئے جہاں اس وقت جسٹس محمد نذیر غازی کا بیان فرما رہے تھے۔وہ ایک زمانے میں 92نیوز ٹی وی پر صبح کا پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔ چراغ مدینہ مسجد کے اس اجتماع میں پہلا خطاب سید قمر علی زیدی کا تھا اور وہ اس مسجد میں جمع کا خطبہ بھی دیتے ہیں۔بہت ہی کمال مقرر ہیں جسٹس محمد نذیر غازی نے تو بہت تفصیل کے ساتھ آقاؐ کی سیرت بیان کی وہ نہایت صاحب مطالعہ ہیں ایک بات انہوں نے کی کہ جرمنی میں ایک کتب نمائش سے انہوں نے ایک کتاب صرف اس لئے خریدی کہ مصنفہ نے اس میں بات لکھی تھی جو ان کی نظر میں آ گئی کہ مسلمان مائیں تو اپنے دودھ کے ساتھ بچوں میں اسلام انجیکٹ کر دیتی ہیں۔یعنی وہ تو گودی میں اپنے بچوں کی تربیت اسلامی ڈھنگ سے کرتی ہیں۔ مجھے کسی شاعر کا ایک مصرع یاد آ گیا۔’’وہی آدھا سکھا دیتی ہیں پنگھوڑے میں مائیں‘‘ غازی صاحب نے بتایا کہ وہ چھ ماہ کے تھے ماں گود میں لے کر چکی پیستی تھیں قرآن کی تلاوت کرتی تھیں مجھے اپنی امی یاد آ گئیں۔ایک فقرہ ان کا میرے ذھن میں ثبت رہا کہتی تھیں بیٹا میں نے تمہیں وضو کر کے دودھ پلایا تھا اس کی لاج رکھنا واقعتاً یہ ہماری تہذیب ہے پہچان ہے ۔شناخت بلکہ سب کچھ ہے قرآن کو تھام لینے ہی میںنجات ہے آپؐ کی سیرت پر چلنا ہی کامیابی ہے۔ بس یہی کہنا ہے کہ وقت کی قدر کریں قرآن اور صاحب قرآن کی طرف آ جائیں۔کامرانی کی گارنٹی صرف اللہ کے رسولؐ کے پاس ہے اور اللہ کہتا ہے کہ آقاؐ کی زندگی ہی اسوۃ الحسنہ ہے رول ماڈل ہے۔چوہدری محمد شہزاد چیمہ اور رانا سہیل کا ایک مرتبہ پھر شکریہ کہ انہوں نے ایک اسلامی ماحول کالونی کو دیا: اے سعدؔ محمد سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ