لگتا ہے ہماری صفوں میں ایسا کوئی نہیں سب ہی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی پاداش میں لڑکھڑا اور ڈگمگا رہے ہیں۔ م بحران میں دھنستے جا رہے ہیں۔ قوموں کے بحران ایک جیسے ہوتے ہیں ان کے پہلو یکساں ہوتے ہیں مسائل اور ان کی جہتیں ایک سی ہوتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ قدرت اور حالات نے ہمیں من حیث القوم ایک امتحان سے دوچار کر دیا ہے۔ میڈیا میں ایسا لگتا ہے کہ قلم ‘ آوازیں ‘ جذبات‘ طرز تکلم سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے ہیں۔ مسائل اور مصائب کے ہجوم اور اس ناامیدی کی فضا میں سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ سیلاب امڈ رہا ہے یہ کسی کو خیال نہیں کہ کمزور معیشت‘ سیاسی بدامنی اور باہم تقسیم در تقسیم کی لہریں سب کچھ بہا لے جائیں گی۔قوم ہر بار توقعات لگا کر نہ جانے کیا کیا خواب اپنی آنکھوں میں سجانے لگتی ہے۔ ہم جن کے ہاتھوں میں اپنی قیادت دیتے ہیں انہوں نے ہمیں رلا مارا ہے۔ یہ سب ہی اسی فکر میں ہیں کہ مسند اقتدار پر کیسے براجمان ہوں لیکن عوام کو تو مہنگائی کا توڑ چاہیے، روزگار چاہیے‘ترقی چاہیے اپنے بچوں کے مستقبل کا تحفظ چاہیے، بیمار کو دوائی چاہیے۔ آپ میں سے سب ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کی روایات آئین کی منشا اور وقت کا تقاضا ہے کہ الیکشن ہوں۔الیکشن ضرور ہونے چاہیئں‘لیکن اگر کوئی انتشار اور غلبے کی جبلت سے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا خواہش مند ہے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے غلط فیصلوں سے بہت سا نقصان کر لیا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ کر سیاسی اکھاڑے میں داخل ہو رہا ہے کہ اس کی کارکردگی اور خدمت ملک کے چپے چپے میں زندہ تصویروں کی طرح موجود ہیں، اسے غلط طریقے سے ہٹایا گیا تاحیات نااہل کیا گیا، اب ان غلطیوں کا ازالہ کیا جائے، لیکن گزرے سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ،اسٹیج کا منظر بدلا بدلا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ ایک ایسی نسل سامنے آ گئی ہے جو ماضی اور تاریخ پاکستان کے متعلق بالکل اندھیرے میں ہے یہی وجہ ہے کہ جھوٹ سچ سب کچھ چل رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی دھما چوکڑیوں نے ہر کسی کو کنفیوژ کر دیا ہے۔ اس نے خبر کی کریڈیبلٹی اور سچائی کے تشخص کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی جھوٹ اور سچ کا کاک ٹل بنا کر پیش کر رہا ہے ۔کہیں آصف علی زرداری ایک نشست میں بہت سی باتیں کر جاتے ہیں شاید حالات کی نزاکت نے انہیں وہ سب کچھ کہنے پر مجبور کیا۔ جو وہ نہیں کہنا چاہتے تھے۔لیکن بدلتے موسم میں انہوں نے اپنے صاحبزادے کو کسی مشکل میں پھنسنے سے بچا لیا۔ میوزیکل چیئر کے خطرناک کھیل نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سمندر میں ایک ٹوٹے پھوٹے بغیر پتوار کے جہاز کی طرح پاکستان بھی کسی منزل سے ادھر سے ادھر ڈول رہا ہے جس کے ناخدا‘ اس کی بیورو کریسی اور اس کے کرتا دھرتا ہیں جو ناامیدی سے دوچار ہیں ۔آخر ہم اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ جس ملک کی اکثریت کا نا خدا ظالم ،ان پڑھ اور جاہل جاگیردار ہو گا، اس ملک میں بھوک ‘ افلاس‘ جہالت اور بیماری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ جس ملک کے 7فیصد بااثر اس کی 60فیصد قابل کاشت زمین پر پھن پھیلائے بیٹھے ہوں ، جس کے 0.1فیصد جاگیرداروں کے قبضے میں 15فیصد زمین ہو ،جہاں پنجاب کے 0.15فیصد شاہ‘ لغاری‘مزاری‘ کھوسے ‘ مخدوم‘ چودھری‘ ملک‘ ٹوانے60فیصد زمین کے مختار کل ہوں گے۔ جس کے سندھ کے ایک فیصد پیر،جتوئی‘ جام‘ چانڈیو‘ انہڑ،بھٹو 30فیصد رقبے کے بادشاہ ہوں، جس میں سرحد کے ایک فیصد سے بھی کم خٹک ‘آفریدی‘ نواب، الائی ،میر اور باچے 15فیصد زمین کے ناخداہوں ، جس میں بلوچستان کے مری‘ مینگل اور بگتی ایک ایک انچ زمین کے دیوتا ہوں اس ملک کے عوام کمی‘ مزارعے اور ہاری نہیں ہوں گے تو کیا ہوں گے۔ اگر ہم ذرا پاکستان جیسی زرعی ریاست کی زرعی زمینوں کا سروے کریں کہ کاشتکاروں اور عام کسانوں کے پاس اس زمین کا صرف 20فیصد ایسا حصہ ہے جو قابل کاشت ہے‘ پنجاب کے وسیع و عریض زرعی زمینں میں 80فیصد ایسا حصہ ہے جو قابل کاشت ہے۔ پنجاب کے وسیع و عریض زرعی زمینوں میں 80فیصد کسانوں کے پاس صرف 10فیصد نہری اور بارانی زمینوں کا قبضہ ہے سندھ میں اس سے بھی کم زمین ہاریوں‘ چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کی ملکیت ہے سرحد میں 65فیصد کاشتکاروں کے پاس صرف 9سے 10فیصد زمین کا حصہ ہے اور بلوچستان میں صورتحال اس حوالے سے بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد 75سال گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک میں فیوڈل سسٹم آج تک جاری ہے اسی سبب 70فیصد عوام کی گردن زمینداروں کے جبڑوں میں دبی ہوئی ہے اور پھر طرہ یہ کہ یہ وڈیرہ ،جاگیردار ٹیکس نہیں دیتا۔ یہ اربوں روپے مجروں‘ کتا دوڑوں ریچھ کی لڑائیوں ،بٹیر بازیوں اور عیاشیوں میں ضائع کرتے ہیں،ہر سال اربوں روپے کی گاڑیاں خریدتے ہیں ،اربوں روپے کا غیر ملکی تمباکو پھونکتے ہیں۔ پھر شہری آبادیوں میں بلکہ پاکستان کے ہر بڑے شہروں میں جن کی کھربوں روپے کی جائیدادیں ہیں ۔ان کے ٹھاٹ باٹ کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ ان کے لاکھوں ملازمین، گارڈز اور ہرکارے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایسے ملک میں بیماری، بے برکتی اورافسردگی نہیں ہو گی تو کیا ہو گا۔؟جس ملک کی پارلیمنٹ ‘ بیورو کریسی لوکل باڈیز اور بڑے عہدوں پر فائز عہدیداروں جاگیرداروں کا قبضہ ہو۔ جس کی ساری معیشت کو مافیاز کنٹرول کرتے ہوں،جس ملک کے یہ لوگ نہریں نہ کھدنے دیں،سکول نہ بننے دیں، سڑکیں نہ نکلنے دیں، ٹریکٹر نہ چلنے دیں۔ ووٹ نہ ڈالنے دیں ،کسی کو کوئی سوال نہ کرنے دیں ،جس ملک میں 21ویں صدی میں جب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے فیوڈل ازم قائم ہو جس ملک میں سیاست چند لوگوں کے اشاروں پر چلتی ہو۔ اس ملک کے لوگ گونگے بہرے اور بے حس نہ بنیں تو کیا بنیں؟ بین الاقوامی اکنامک ڈویلپمنٹ کے ادارے متفق ہیں کہ لینڈ ریفارمز کے بغیر کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جس ملک میں کمانے والے ٹیکس نہ دیں وہ چل نہیں سکتا۔جس ملک کے لوگ اپنا اناج، اپنی زمین پر کاشت نہیںکرتے وہ بھوکے مر جاتے ہیں۔ خود سوچیں کہ جس ملک میں 21ویں صدی میں بھی جاگیرداری نظام پورے کروفر سے چل رہا ہو وہاں بھوک افلاس جہالت اور بیماری نہ ہو تو کیا ہو؟ جب ہم اس ملک کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالتا ہوں تمام بنیادی اداروں کو برباد ہوتے دیکھتا ہوں ملک سے شہریوں کی کمٹمنٹ کمزور ہوتے اپنی ضروریات زندگی کے ہاتھوں خوار ہوتے روزگار صحت اور تعلیم کے پیچھے بھاگتے دیکھتا ہوں تو خود ہی اپنے لئے سوال کرتا ہوں کہ اللہ کی دی ہوئی تمام نعتوں کے باوجود ہم کیوں خوار ہو رہے ہیں تو جواب یہی ملتا ہے کہ جو قومیں نااہل اوربددیانت لوگوں کو اپنا آقا بنا لیں ان کے لئے کوئی موسیٰ نہیں اترا کرتا۔