خلیفۃُ الرسول ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آیا، توآڈٹ ٹیم کو طلب کیا کہ وہ میرے اثاثوں "Assets" کا جائزہ لے ۔۔۔کر آئے، منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد اس میں اضافہ تو نہیں ہوا؟ اور اگر ہوا ہے ، تو اس کا ازالہ کر سکوں ، رپورٹ ہوا، کہ ایک حبشی غلام جو گھر کی ڈیوٹی کے ساتھ ، مسلمان مجاہدین کی تلواریں بھی صیقل(Metal Polish) کرتا ہے، ایک اونٹنی ، جس پر پانی لایا جاتا ہے اور ایک چادر جس کی قیمت تقریباً سوا روپیہ ہوگی… ارشاد ہوا یہ تینوں چیزیں سرکاری ہیں، ریاستی ذمہ داری موقوف ہوتے۔ یعنی میری وفات کے فوراً بعد ، خلیفۂ وقت کو بھیج دی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی تعمیل میں یہ سامان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچا، تو بے ساختہ آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں،نئے خلیفۂ وقت ۔۔۔ روتے جاتے اور کہتے جاتے، اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، آپ اپنے جانشینوں کے لیے کام بہت دشوار چھوڑ گئے ۔ معیقیب دوسی ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کے منتظم ۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مرض الموت میں حاضر ہوئے ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "بتاؤ میری گھرداری کے امور میں، میرے ذمّہ کیا ہے؟ "اس نے کہا پچیس درہم … لیکن میں آپ کو معاف کرتا ہوں، فرمایا چپ رہو اور میرے توشہ آخرت کو قرض سے مت تیار کرو۔ معیقیب یہ سن کر رونے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، آنسو نہ بہاؤ اور گھبراؤ نہیں، صبر کرو، میں امید کرتا ہوں کہ میں اس جگہ جارہا ہوں ، جو میرے لیے بہترین اور پائیدار تر ہے، اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پچیس درہم ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا؟ کہا تین میں‘ تو اس وقت زیب تن لباس جو کافی بوسیدہ تھا‘ فرمایا مجھے انہی میں کفن دے دینا‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے آبدیدہ ہو کر کہا‘ ہم اس کے لیے نئے کپڑے کا اہتمام کرسکتے ہیں‘ فرمایا‘ بیٹی نئے کپڑے کی مردہ کی نسبت زندہ کو زیادہ ضرورت ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ، مکی دور میں آ پ رضی اللہ عنہ سمیت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ،جو کہ مکہ کی چیمبر آف کامرس کے رکنِ رکیں ، اور آپ رضی اللہ عنہ ہی کی مصاحبت اور رفاقت کے سبب اسلام کے شرف اور اعزاز سے متصف ہوئے۔ تجارت میں مہارتِ تامہ کے سبب ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار، عرب کے رؤسا میں ہوتا اور آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ تجارت صرف مکہ یا عرب تک ہی محدود نہ تھا بلکہ یہ نیٹ ورک شام، یمن ، عراق اور ایران تک پھیلا ہوا تھا۔ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد، جب آپ رضی اللہ عنہ اپنے روزگار کے لیے، اپنا نجی کاروبار جاری رکھنے کے خواہاں ہوئے، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، اس کوترک کردینے کامشورہ دیتے ہوئے ، عرض گزار ہوئے کہ اب آپ اُس ریاستِ مدینہ کے سربراہ اور امیر ہیں، جس کی سرحدیں عرب کی حدود سے باہر نکلنے کو بیتاب ہیں، اب تو آپ رضی اللہ عنہ کی قربت کا اعزاز پانے کے لیے ہر فرد، خاندان، کمپنی یا ادارہ آپ ہی سے کاروبار کرنے کی کوشش کرے گا، یعنی آج کی زبان میں ، ہر آدمی آپ ہی کے "Brand"کو وجۂ اعزاز جانے گا، اور آپ کے ساتھ تعلق کو استوار کرنے کے لیے ، آپ سے کاروباری شراکت اور پارٹنرشپ کو بڑھانے کا خواہاں ہوگا۔ حضرت عمرؓ کے اس پوائنٹ آف آرڈر پر ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، آپ کی بات بجا ، لیکن، اگرمیں بزنس نہیں کروں گا، تو اپنے گھر اور خاندان کی کفالت کا فرض کس طرح پورا کروں گا؟ صحیح بخاری کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری قوم بخوبی جانتی ہے کہ میرا پیشہ میری گھریلو ضروریات کے لیے کافی تھا لیکن اب مسلمانوں کے امور کی نگہبانی کے سبب آل ابوبکر رضی اللہ عنہ … بیت المال سے اپنے اخراجات پورے کرنے میں حق بجانب ہے‘ چنانچہ طے ہوا کہ آپ کے لیے روزینہ اور سرکاری مشاہرہ(Daily Allowance) مقرر کیا جائے ۔ یہ روزینہ کتنا ہو ۔۔۔؟ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ یعنی شوریٰ کرے گی۔روزینہ /مشاہرہ کے تعین میں ایک عام شہری کے معیارِ زندگی کو بنیاد بنایا گیا۔ اس بابت دیگر مختلف روایات، جن کو ابنِ سعد نے یکجا کر کے ، تطبیق کی، جس کے مطابق اس کی مقدار دو ہزار درہم سالانہ قرار پائی، یعنی تقریباً پونے دو سو درہم ماہانہ، جو بتدریج اضافے کے سبب ، بوقت وصال جس کاٹوٹل چھ ہزار درہم بنتا تھا ، جو علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر سعید اکبر آبادی کے مطابق ہندوستانی کرنسی کے مطابق کم و بیش ڈیڑھ ہزار روپیہ ہوگا۔ بوقت وصال آپ رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا کہ میرا فلاں قطعہ اراضی فروخت کر کے ، سرکاری مشاہرے کی یہ رقم بھی بیت المال میں جمع کروا دی جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں قوم اور امت کی قیادت کا جو بنیادی اصول طے فرمایا وہ تھا کہ "حاکم اور رعایا کے درمیان تمام معاملات کی بنیاد "سچائی" پر ہونی چاہیے۔ اسی سے قوم کا بھی لیڈرشپ پر اعتماد قائم ہوتا ہے‘ اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو قومیں اور ملک ویران ہو جاتے ہیں۔ ابن خلدون نے خلیفۃُ الرسول رضی اللہ عنہ کے اس طرزِ زیست اور اسلوبِ حیات سے روشنی اخذ کرتے ہوئے، اس پر اپنے فکر و فلسفہ کی بنیادیں استوار کیں، وہ کہتا ہے کہ اگر حکمران از خود ہی تاجر بن جائیں اور پھر کاروبارِ سلطنت کی بجائے اپنے ذاتی کاروبار اور نجی تجارت کے فروغ میں سرگرداں ہو جائیں تو پھر ریاست زوال پذیر اور رعایا معاشی تنگی اور مجموعی مالی صورتحال بداعتمادی اور خسارے سے دوچار ہو جائے گی ۔ ہجرت کے بعد، مدینہ کے مشرق میں، سُخ نامی گاؤں میں رہائش پذیر ہوئے، سیدھا سادہ سا دیہاتی مکان، اور معمولی درجے کی بودو باش اور رہن سہن، منصبِ خلافت پہ متمکن ہوئے ، لیکن معیارِ زندگی میں تبدیلی کا کوئی ساماں پیدا نہ کیا۔