قانون کی بالادستی کے آرزو مند پاکستانیوں کے لئے مریم نواز کی نیب آفس پیشی کے موقع پر ہنگامہ آرائی مایوس کن ہے۔ مریم نواز کو نیب لاہور نے اراضی خریداری پر پوچھ گچھ کے لئے طلب کر رکھا تھا۔ اصولی اور معقول طریقہ یہ تھا کہ وہ اکیلے نیب آفس آتیں‘سوالات کے جواب دیتیں اور قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دیتیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ نیب میں طلب کر کے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔نیب آفس کے باہر ہنگامہ آرائی کرتے ن لیگی کارکنوں کے درمیان کھڑے ہو کر انہوں نے کہا کہ نیب دروازے کھولے اور اب جواب لے۔ مریم نواز نے بعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے ساتھ آئے کارکنوں پر پتھرائو اور تشدد کیا۔مریم نواز نے بتایا کہ پولیس کے پھینکے گئے ایک پتھر سے ان کی بلٹ پروف گاڑی کی سکرین ٹوٹ گئی۔اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ن لیگی اراکین نے پولیس تشدد کے نام پر احتجاج کیا‘مریم نواز سے اظہار یکجہتی کے طور پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ‘ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن نے بھی بیانات جاری کئے۔ پاکستان میں سابق حکمران رہنے والی دونوں بڑی جماعتیں حیرت انگیز طور پر عوامی شعور کے ادراک میں ناکام رہی ہیں۔مدت تک سیاسی طاقت کے زور پر ریاست اور ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کی روایت کو جمہوریت کی فتح کا نام دے کر جرائم چھپائے جاتے رہے۔ گزشتہ برس اسلام آباد میں بلاول بھٹو کو تحقیقات کے لئے طلب کیا گیا تو پیپلز پارٹی کے حامیوں نے پولیس کے ساتھ تصادم کی راہ اپنائی۔ عوام کے حافظے میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا سپریم کورٹ پر حملہ اب تک محفوظ ہے۔ پارٹی کے کئی ایم این اے اور ایم پی اے اس حملے میں ملوث پائے گئے۔ 2014ء میں عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پر پولیس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ہدایت پر حملہ کیا۔ اس کارروائی میں 14افراد جاں بحق ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔گلو بٹ نامی ایک لیگی کارکن نے پولیس افسران کی موجودگی میں شہریوں کی گاڑیاں توڑیں اور پھر ان افسران سے موقع پر شاباش لی۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت وزیر اعلیٰ ہائوس سے دبائو ڈال کر تھانہ فیصل ٹائون کو تحریک منہاج القرآن کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے روکا گیا۔ یہ وہ طاقت ہے جو سیاسی جماعتیں قانون کے سامنے جوابدہ ہونے کے تصور سے بے خوف ہو کر استعمال کرتی رہی ہیں۔ نیب کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں پنجاب کے مختلف اضلاع سے لائے گئے منتخب نمائندوں اور چنیدہ جھگڑے بازوں کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ خود بخود نہیں آئے بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مختلف علاقوں سے انہیں ایک ہی وقت پر لایا گیا۔ ٹی وی چینلز پر پتھروں سے بھرے ان تھیلوں کو بھی دکھایا جاتا رہا جو مسلم لیگ ن کے رہنما اور کارکن اپنی گاڑیوں میں رکھ کر نیب آفس آئے۔ یہی پتھر پولیس پر پھینکے گئے اور ان سے متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ن لیگی کارکنوں کی ہنگامہ آرائی میں کئی لیڈی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئیں۔ یہ صورت حال بھلے چند سیاسی شخصیات کے لئے فائدہ مند ہو لیکن اس سے عوامی سطح پر پائے جانے والے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت خود کو قاعدے قانون سے ماورا سمجھتی ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ نیب ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی شکایت ہے تو انہیں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔اب تک معزز عدالتوں سے جب بھی ان کی جماعت نے کسی جائز شکایت کے لئے رجوع کیا انہیں ریلیف ملا ۔ سب سے بڑا ریلیف میاں نواز شریف کا علاج کی غرض سے لندن جانا ہے۔ خود مریم نواز اب بھی کئی رعایتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔سرکاری اہلکاروں اور املاک پر پتھر برسانا اور توڑ پھوڑ کرنا نہ تو سیاست ہے اور نہ اس طرح سے مریم نواز کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے۔ ان کے سامنے ایک قانونی سوال رکھا گیا جس کا جواب وہ نیب کو دینا نہیں چاہتیں‘ اراضی کے معاملے پر وہ خود آن ریکارڈ کہہ چکی ہیں کہ ان کی پاکستان میں کیا دنیا کے کسی علاقے میں پراپرٹی نہیں۔ اب اگر سینکڑوں کنال زمین ان کے نام پر نکل آئی ہے تو انہیں اپنے ذرائع آمدن اور ملکیت کے متعلق سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز سے سوال کیا گیا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکیں۔ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ نواز لیگ نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کارکن اکٹھے کئے۔ انہوں نے بتایا کہ دستیاب فوٹیج کی مدد سے پتھرائو کرنے والی گاڑیوں اور افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو عوام میں پائے جانے والے اپنے تاثر کو مثبت کرنے کی ضرورت ہے۔ دھونس دھاندلی اور ہنگامہ آرائی سیاست کے چلن نہیں۔ سابق حکمران جماعتوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر عوام نے ان کو مسترد کر کے ایک نئی جماعت پر اعتماد کا اظہار کیوں کیا۔ پاکستان اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ۔خطے میں حالات یکسوئی مانگتے ہیں ۔ پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی پیہم کوششیں ہیں۔ ایسے حالات میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنا کر داخلی انتشار پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اگر اپنے کارکنوں کی تربیت نہ کی او ران کو صرف ہنگامہ آرائی کے لئے استعمال کرنے کی روایت جاری رکھی تو کل کلاں یہ چلن تمام سیاسی جماعتوں اور خود جمہوری عمل کے لئے ایک خطرہ بن سکتا ہے۔