بانی پی ٹی آئی کو دو علیحدہ مقدمات میں باالترتیب دس اور چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، ایک مقدمہ سائفر سازش کا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ توشہ خانہ سے حاصل تحائف کو کم قیمت پر خریدنے کا ہے، ان دو مقدمات میں سائفر سازش کیس میں بانی پی ٹی آئی کیساتھ شاہ محمودقریشی کو سزا سنائی گئی جبکہ توشہ خانہ ریفرنس میں سابق خاتون اول بشری بی بی کو انکے ہمراہ چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، سائفرکیس میں عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی کو 10،10 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذولقرنین نے سزا سنائی اسکے اگلے ہی روز توشہ خانہ نیب کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کو 14 ، 14 سال قید بامشقت قید کی سزا سنادی عمران خان اور بشری بی بی پر ایک ارب 57 کروڑ تیس لاکھ روپے جرمانہ عمران خاں کو 10 سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا گیا،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے بعد فیصلہ سنادیا۔ فیصلہ سناتے وقت بانی پی ٹی آئی کمرہ عدالت میں موجود تھے ان دو کیسز میں سزا کے بعد اسوقت ملک ایک بار پھر مقبول بیانیئے کی زد میں ہے، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے میری برادری کے دوست اسے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں کوئی یہ کہتا ہے کہ ن لیگ کی خواہش ہر یہ سب کچھ ہورہا ہے کوئی اسکے لئے اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرا رہا یے تو کوئی عدالتوں کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہا ہے ماہرین قانون یا پھر کورٹ کو رپورٹ کرنے والے بہت سے رپورٹرز یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوتے ہی دو پیشیوں میں اڑ جائیگا پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ کیا ہے سائفر کیا کوئی انہونی چیز ہے جو پی ٹی آئی دور میں پہلی بار آیا تو جواب نفی میں ہے کیونکہ سائفر بھجوانا ایک معمول کی کارروائی ہے جسے بیرون ملک موجود سفیر ریاست پاکستان کو بھجواتے ہیں جسکی مدد سے اس ملک میں موجود سفیر کوڈ ورڈ میں اس ملک کی سرگرمیوں اور وہاں سے موصول ہونے والے ریاستی پیغامات اپنی ریاست کو بھیج دیتے ہیں اور ایسے کئی مراسلے اور سائفر آنا معمول کی بات ہے لیکن جو بات غیر معمولی ہے وہ ہے سابق وزیر اعظم نے اس سائفرکو جس انداز میں استعمال کیا وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف ورزی ہے انکے حلف کی خلاف ورزی ہے اس مقدمے کے نقائص پر تو بانی پی ٹی آئی ٹیکنیکل ریلیف جو کہ عارضی ہوگا لے سکتے ہیں لیکن الزام سے بریت اتنی آسان نہیں ہوگی اسلئے جب تک وہ اس مقدمے کو بیانیئے اور ٹیکنیکل انداز سے لیکر چلیں گے تو قید ختم ہونا آسان نہیں اس وقت جو لکھاری بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کو بھانپتے ہوئے اس ساری صورتحال کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں کسی ایک نے بھی میرٹ پر یہ دلیل ہی نہیں دی کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر کا غلط استعمال نہیں کیا اور آفیشل ڈاکومنٹ کی ایک کاپی کی گمشدگی اور اپنے پاس ہونے کا انہوں اعتراف نہیں کیا جبکہ دوسرے مقدمے یعنی توشہ خانہ میں بھی بانی پی ٹی آئی اور انکے مقبولیت کی معراج کے مارے ذہن ساز یہ ثابت نہیں کرسکے کہ توشہ خانہ سے غلط فائدہ نہیں لیا گیا اور بانی پی ٹی آئی اس میں ہر گز ذمے دار نہیں ہیں، جیسے سائفر کے معاملے کو سیاسی بیانیئے کیلئے غلط استعمال کرکٹ عدم اعتماد سے بچنے کی ناکام کوشش کی گئی ویسے ہی توشہ خانہ ریفرنس میں اپنی بریت کو ثابت کرنے کے جائے بانی پی ٹی آئی سابقہ وزراء اعظم کی توشہ خانہ سے مستفید ہونے پر متعرض نظر آئے اور اپنی بریت کو ثابت کرنے کے بجائے سابقہ وزراء اعظم کی غلطیوں کو نشاندہی کرکے اس معاملے سے جان چھڑانے کے خواہاں نظر آئے دو ہزار اٹھارہ میں حکومت قائم ہونے سے آج تک پاکستان تحریک کے بانی نے الزامات اور بیانئے گھڑنے کے علاوہ کوئی ایسا عملی سیاسی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے انکی سیاسی اور قانونی پختگی کا کوئی ثبوت مل سکے بانی پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ کا مقدمہ یہ نہیں کہ سابق وزرائے اعظم یا صدور نے نے کیسے غلط فوائد لئے بلکہ مقدمہ یہ ہے کہ وہ بھی سابق وزرائے اعظم یا صدور سے مختلف نہیں نکلے انہوں نے نظام کو بدلنے کے صرف دعوے کئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اگر نظام کو بدلنے کے دعوے میں حقیقت ہوتی تو آج بانی پی ٹی آئی کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا جسکے لئے آج وہ ماضی کی بے ضابطگیوں کو بنیاد بنا کر بچنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ایسے ہی سائفر کے معاملے پر جس گھناؤنے کھیل کا آغاز ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ سے ہوا اگر اسوقت کی پی ڈی ایم کی حکومت سیاسی کمزوری نہ دکھاتی اور آئین کی خلاف ورزی کی کارروائی کا آغاز کرتی تو آج ملک سیاسی بیانیئے کی زد میں نہ ہوتا آج عدالتی فیصلوں میں قانونی سکم ہونگے اسکا فائدہ ملے گا لیکن وہ عارضی ہوگا بانی پی ٹی آئی کو سیاسی اور قانونی حکمت عملی میں اپنے غلط لائحہ عمل پر غور کرنا ہوگا بصورت دیگر سیاسی بیانیئے کی بنیاد پر مقبولیت ضرور مل سکتی قانونی ریلیف نہیں اب فیصلہ بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہے کہ مقبولیت کی معراج پر رہنا ہے یا قانونی اور سیاسی جنگ کو علیحدہ علیحدہ لڑنا ہے۔ اس بحران سے نکلنے میں ریاست کو ایک طویل اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اور ریاست اس مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن سوال یہ کہ کیا بانی پی ٹی آئی نے اس ساری صورتحال سے کوئی سبق سیکھا ؟