کور کمانڈرز کانفرنس میں عسکری قیادت نے جمہوری عمل کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق کور کمانڈر کانفرنس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کور کمانڈر کانفرنس میں بھارت کی جان سے ماورائے علاقہ و ماورائے عدالت قتل اور پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانے کی مہم پر بریفنگ دی گئی ۔اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔کور کمانڈر کانفرنس میں ملکی خود مختاری،قومی عزت اور عوامی امنگوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ اور عسکری قیادت کے عزم کو الیکشن کمیشن کے اس اجلاس کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس نے باجوڑ میں ایک امیدوار کے قتل، بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں اور دیگر مسائل کی صورت میں کچھ حلقوں میں الیکشن موخر کرنے پر غور کیا ہے۔کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ سے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والی قوتوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے جمہوری حق کا استعمال کر کے بد امنی پھیلانے والے عناصر کو مسترد کریں گے اور ساتھ ہی پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف مستعدی سے کارروائی کر سکتی ہے۔ پاکستانکو بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ یہ کام افغانستان کے بارے میں ایک مستقل پالیسی کے فقدان کی وجہ سے پیچیدہ رہا ہے، کیونکہ دہشت گرد اپنی کارروائیاں شروع کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استحصال کرتے ہیں، افغان طالبان بیک وقت اس امر کی تصدیق اور تردید کر کے پالیسی میں ابہام کو مزید گہرا کرتے رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے، ٹی ٹی پی نے اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں، دہشت گرد قرار دیئے گئے گروپ نے سینکڑوں حملے کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً دوگنے ہیں۔ان سے معاملات مزید پیچیدہ اہو گئے،وقفے وقفے سے آنے والی رپورٹس پاکستان میں نوجوان طالبان جنگجوؤں کی آمد کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ عسکریت پسند پاکستانی ہم خیال جنگجووں کے ساتھ مل کر ریاست پاکستان کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سابق ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کا ایک گروپ پاکستان کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھا نے کی کوشش کر رہا ہے۔ سیاسی قیادت کی پہلی ذمہ داری اداروں پر بڑھتا ہو بوجھ کم کرنے کے لئے موثر پالیسی کی تشکیل ہے۔سیاسی حکومتوں کی نااہلی رہی ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے جو متفقہ ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔ مسلم لیگ نواز، تحریک انصاف اور پی ڈی ایم اس کوتاہی کی ذمہ دار ہیں۔اس بوجھ کا سامنا عسکری قیادت کو کرنا پڑا۔پی ڈی ایم حکومت نے اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے بعد گھر بھیج دی۔پی ڈی ایم نے جمہوریت کی مکمل بحالی کا وعدہ کیا۔پی ڈی ایم نے اس عزم کو پورا کیا یا نہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔پی ڈی ایم کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے متعدد خامیاں سامنے آتی ہیں۔ اپنے الوداعی خطاب میں پی ڈی ایم حکومت کے اہم اتحادی بلاول بھٹو زرادری نے اعتراف کیا کہ ان کی مخلوط حکومت کئی لحاظ سے ناکام رہی ۔ اگرچہ بلاول نے مخصوص تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں پی ڈی ایم حکومت نے تیزی سے ایسے متعدد قوانین اور ترامیم نافذ کیں، جن میں سے کئی اپنی نوعیت میں جمہوریت مخالف تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے سیاسی کشیدگی کم کرنے کی بجائے اسے سیاست بمقابلہ ادارے کی لڑائی بنانے کی کوشش کی۔اس طرح کی قانون سازی کا سارا فائدہ ان جماعتوں نے اٹھایا جن کی سیاسی گنجائش عوام کی نظروں میں ختم ہو رہی تھی اور وہ مختلف ہتھکنڈوں سے نظام پر اپنی گرفت برقرار رکھنا چاہتی تھیں۔ مزید برآں، 2023 کے الیکش (ترمیمی) بل نے الیکشن کمیشنکو امیدواروں کو نااہل قرار دینے اور انتخابات میں تاخیر کرنے کے لیے مزید اختیارات فراہم کیے، جبکہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے اس کے بنیادی کردار کے باوجود، عبوری نگران حکومت کو پالیسی فیصلہ سازی کا اختیار بھی دیا۔پی ڈی ایم حکومت کو الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) بل کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، مبصرین کے خیال میں یہ بل حکومتی تنقید پر پابندی لگا کر آزادی اظہار کو کم کرتا تھا۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں یہ امر فراموش کر چکی ہیں کہ جمہوری کنٹرول ہمیشہ مسلح افواج اور معاشرے کے درمیان دو طرفہ عمل ہونا چاہیے۔ مخصوص حالات کی وجہ سے عسکری قیادت کو اپنا ہمہ جہتی کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل ہیں۔سرحدوں پر کشیدگی، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ،سیاسی قوتوں کا استحکام پیدا کرنے میں ناکامی ،معاشی بحالی کے منصوبوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں عساکر پاکستان کا بطور ضمانتی کردار کئی طرح کے ممکنہ خطرات سے بچاتا آیا ہے ۔پی ڈی ایم اور اس سے پہلی حکومتیں ان امور پر عسکری قیادت کا نکتہ نظر وضاحت کے ساتھ نہیں دیکھ سکیں۔جمہوری معاشرے میں مسلح افواج کے لگے بندھے کردار کا کوئی ایک عام ماڈل نہیں ہے تاہم، بہت سے مشترکہ اصول ہیں۔ کور کمانڈر کانفرنس میں عام طور پر فوج کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے متعلق ادارے کی اجتماعی سوچ کا اظہار کیا جاتا ہے۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاک فوج کی قیادت بعض سیاسی جماعتوں کی نااہلی کے باوجود جمہوریت کو پروان چڑھانے کا عزم رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ عوام پر امن ماحول میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔