دوہزار سات کا سال تھا دس سالہ عظمیٰ کسی بدبخت کے گھر ملازمہ تھی ۔مالکن نے کسی بات پر بچی کو روئی کی طرح پنج کے رکھ دیا تھا۔ تشدد کی خبر باہر آئی تو میڈیا پر ہلچل مچ گئی۔ پنجاب حکومت نے بچی کے علاج کا اعلان کیا اسے سروسز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا میں اسے دیکھنے کے لیے گئی اور پوری رات سو نہیں سکی۔سروسز ہسپتال کے ایک وارڈ میں بیڈ پر لیٹی ہوئی غریب عظمیٰ کے سرہانے پھل اور ٹھنڈے جوس کے ڈبے موجود تھے۔سفید لباس میں ایک نرس مامور تھی جو بچی کی بار بار خبر گیری کرتی ،غربت زدہ والدین اس بات پر مطمئن بیٹھے تھے کہ علاج سرکاری خرچے پر ہو رہا ہے۔ہسپتالوں میں اتنا پروٹوکول تو انہوں نے زندگی میں تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ کاش کہ ریاست اس بچی کا پہلے خیال رکھتی اس کی غربت زدہ زندگی کے سرہانے پھل اور ٹھنڈے جوس کے ڈبے رکھنا ریاست کیوں بھول گئی تھی۔آج تک اس تشدد زدہ بچی کا چہرہ ذہن میں کسی ٹیس کی طرح نقش ہے۔اس پر کالم لکھا جو غالباً اخبار میں میرا دوسرا یا تیسرا کالم تھا عنوان تھا اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔2023 میں اس بات کو چودہ برس بیت چکے ہیں۔عظمی کی کہانی کئی بار یہاں مختلف ناموں سے سامنے آتی رہی۔چونکہ بے بس غریب بچیوں کے مجرم سماج کے با اثر افراد ہوتے ہیں اور ریاست کا قانون اور انصاف کا نظام با اثر افراد کے حاشیہ بردار کا کردار ادا کرتا ہے۔ عظمی کے مجرم بھی چند دن خبروں میں رہنے کے بعد آزاد رہے۔عبرت ناک سزا کے سارے دعوے بس بیانات کی حد تک ہوتے ہیں یہ بیان دینے والے بھی جانتے ہیں اور خوشحال اور بااثر مجرم بھی، اس نظام انصاف کی اوقات پہچانتے ہیں۔ اس دوران میں کئی بار اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو کے عنوان سے معصوم بچیوں پر ظلم وستم کے خلاف کالم لکھ چکی ہوں حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔۔۔اب سول جج کی بیوی کے ہاتھوں ظلم گزیدہ 14 سالہ رضوانہ کی تصویریں دیکھتی ہوں تو اسی عظمیٰ کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ سوجھی ہوئی آنکھیں ، چہرے پر زخموں کے نشانات ہ بال نوچے ہوئے ، جلد جلی ہوئی ہے منہ پر جیسے کسی نشتر سے گھاؤ لگائے گئے ہوں۔ اس کے زخموں میں کیڑے پڑے ہوئے ،اس کی بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں تشدد سے توڑی ہوئی۔اس انسانیت سوز تشدد سے بچی کس جگر اور گردے تقریباً ناکارہ،ادھ موئی بچی کو وینٹیلیٹر پر رکھنا پڑا کہ اسے سانس آتا رہے۔مبینہ طور پر اسے زہر بھی دیا گیا تاکہ وہ بات کرنے کے قابل نہ ہو۔ چھ مہینے اس بچی کو والدین سے نہیں ملنے دیا گیا لیکن حالت بگڑنے پر اس کو والدین کے پاس پھینک آئے ۔ظالموں نے نہ جانے کون سی وحشت کے زیر اثر معصوم بچی پر اپنی خباثت نکالی ہے۔ میڈیکل رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چھ مہینے سے بچی سول جج کی بیوی کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بن رہی تھی۔مگر چھ ماہ سے اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اس پر ذرا بعد میں بحث کرتے ہیں کہ والدین بھی اس میں مجرم ہیں یا نہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو کسی کے گھر ملازم رکھوا کر پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔زمینی حقائق یہی ہیں کہ کم عمر غریب بچیاں خوشحال گھرانوں میں ملازمہ رکھی جاتی ہیں یہ معصوم ننھی بچیاں اپنے بچپنے ہی میں اپنے بابل کا گھر اس لیے چھوڑ دیتی ہیں کہ والدین کے پاس غربت اور بدحالی کے باعث ان کو کھلانے تک کی گنجائش نہیں ہوتی وہ اپنے بچپن میں معاشی اپنے والدین کا معاشی بوجھ بانٹنے کے لیے شہر کے خوشحال گھروں میں خدمت پر مامور کر دی جاتی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ ہر بچی ایسے ظلم کا شکار نہیں ہوتی۔اچھے لوگ بہرحال موجود ہیں جو ان بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور انسانیت کا سلوک کرتے ہیں۔ ایسی کی مثالیں مشاہدے میں ہیں جہاں چھوٹی بچی گھروں میں مددگار کے طور پر رہتی تھی گھر والوں نے اچھا سلوک کیا پھر اس کی شادی کا تمام خرچہ اٹھایا جہیز دیا۔ اس طرح انتہائی غربت زدہ والدین کی کافی مدد ہوجاتی ہے۔اول تو بچوں سے کام نہیں کروانا چاہیے لیکن زمینی حقائق مدنظر رکھیں تو سطح غربت سے نیچے سانس لیتے ہوئے خاندانوں کو اپنے بچے کمائی کے ایندھن میں جھونکنے پڑتے ہیں۔ریاست یہاں کسی چیز کی والی وارث نہیں ہے۔اس لیے ریاست بھی اس جرم میں شریک ہیں پاکستان کا عدم مساوات پر مبنی نظام جہاں غریب غریب تر ہو رہا ہے۔مراعات یافتہ طبقہ غریب عوام کے دیے ہوئے ٹیکس پر عیاشی کرتا ہے۔جج اور اس کی بیوی بھی ظلم کے پروردہ اسی نظام کا ایک پرزہ ہیں۔ظلم گزیدہ 14 سالہ بچی رضوانہ ریاست پاکستان کی شہری تھی اور ہے۔ اس نے اپنے بچپن کے 14 برس انتہائی غربت میں گزارے ، گھر کا معاشی بوجھ اٹھانے کے لیے اسے اپنے والدین کا گھر چھوڑنا پڑا، کام کی جگہ پر اسے ایسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے ۔ریاست پاکستان نے اب تک اس کی کون سی ذمہ داری اٹھائی۔ نہ اس کی تعلیم کی ذمہ داری ریاست نے اٹھائی، نہ اسے محفوظ چھت کا حق ملا۔اسے تو اب تک کی زندگی میں پسند کا پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملا ہوگا۔خوفناک عدم مساوات کے اس معاشرے میں اس نے 14 سال زندگی کی بڑی بھاری قیمت چکائی۔ اب جب کہ اس کے ننھے بدن کا ایک ایک پور تشدد سے نیلو نیل ہے تو حکومتی نمائندے اس کی خدمت میں حاضر ہیں۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی اس کی خبرگیری کرتی ہیں۔ صوبے کے وزیر صحت اس کی میڈیکل رپورٹس چیک کرتے ہیں اور اس کے علاج کی نگرانی کرتے ہیںلیکن افسوس اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ہاں مگر سول جج اور اس کی ظالم بیوی کو عبرت ناک سزا دے کر اس کے زخموں پر کچھ مرہم رکھا جاسکتا ہے۔