یہ دیکھا ہے جو باتیں ہوں چھپانے کی وہی ہوتی ہیں لوگوں کو بتانے کی بہت بے چین رہتا ہوں سکون میں بھی کوئی تدبیر ہو فتنہ جگانے کی یہ شاعری بھی تو ایسے ہی ہے کہ اس میں اتر جائو تو بہا کر لے جاتی ہے ان دیکھے ساحلوں کی طرف یا پھر ریت کی طرح کسی صحرا میں آپ کو اڑاتی ہے۔ شلے نے کہا تھا اے مغربی ہوا مجھے کسی پر کی طرح اٹھا یا کسی پتے کی طرح اور زندگی کے کانٹوں پر پھینک دے۔ اور مجھ میں سے خون بہنے لگے۔ ہوا نے لکھ دیا مجھ کو چٹانوں پر اور اس کے بعد کوشش کی مٹانے کی۔ چلیے ہم کوئی عام سی بات کرلیتے ہیں۔ خبر کے پر نکل آتے ہیں تیزی سے۔ اگر تم سوچ لو اس کو اڑنے کی۔ کھلی آنکھیں تو دروازہ کھلا دل کا۔ میری مشکل بھی آساں اب خدا نے کی۔ ایک سوچ یہ ہے کہ ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ مگر آنگن تو اپنا ہے۔ بربادی دیکھی نہیں جاتی۔ کسی کے پاس بھی فخر کی کوئی بات نہیں۔ کسی گملے میں اگے ہوئے پودے نہیں کہ ہر زمین میں لگ جائیں۔ اگر لگ بھی جائیں تو ان کی دیکھ بھال ضروروی ہے۔ یہ پودے بھی پرندوں کی طرح ہوتے ہیں۔ گھر میں طوطے کی مثال دے دوں تو برداشت کی جا سکتی ہے کہ یہی طوطا فال بھی نکالتا ہے اور توپ بھی چلاتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ جو آپ سکھائیں وہ سیکھ بھی جاتا ہے اور بعض اوقات تو گھر والوں کی باتیں سن کر کچھ باتیں اچک لیتا ہے تو احتیاط ضروری ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ دیواریں تک کان رکھتی ہیں اور مکیں نہ ہو تو مکاں بولتے ہیں۔ پتہ نہیں میں اپنی بات کا ابلاغ کر پایا ہوں یا نہیں کہ وہی بات کہ ایک کہنی ہے اک چھپانی ہے۔ یہ میرے عہد کی کہانی ہے۔ اور پھر لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے کہ سیلاب سے متاثرہ لوگ ابھی تک ڈرائونے خواب دیکھتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر اب وہ خبروں سے دور ہیں شہر اقتدار میں بھاگ دوڑ لگی ہوئی ہے کنٹینرز ہیں۔ آپ انہیں فصیلیں کہہ لیں۔ملک بھر میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے کچھ خبر نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ ایسی ابتری اور بے چینی کہ بس۔ بقول افتخار عارف کے کب تماشہ ختم ہوگا مگر کب تماشہ ختم ہوگا۔ کچھ بھی نہیں کھل رہا۔ ایک طرف خان صاحب بریک تھرو کے چکر میں تمام حیلے اور طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ لانگ مارچ مکمل پرامن ہوگا پھر جب چوتھے دن جب آگے بڑھے تو کہا گیا کہ پر امن انقلاب کا راستہ ہے یا خون ریزی کا۔ اس بات پر یکایک فیصل واوڈا کی پیش گوئی کو پر لگ گئے اور وہ شخص جیسے پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا پھر موضوع بن گیا اور اب واوڈا صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں نے پالیسی کی بات کی تھی۔ جس میں ذرا پہلے کر گیا اور خان صاحب نے بعد میں کی۔ ظاہر ہے خان صاحب کا انتخاب کا مطالبہ ہے اور ان کو سوٹ کرتا ہے جبکہ ن لیگ گرم پانیوں میں ہے اور نوازشریف کا پیغام آ چکا ہے۔ ہمیں ہنسی بھی آتی ہے تو نوازشریف وہاں بیٹھے زور لگا رہے ہیں۔ میدان عمل میں خود اتریں تو پتہ چلے۔ ایک اور فیصلہ جو ن لیگ کر چکی ہے حالات خراب کرنے میں خوب مدد گار ہوگا کہ انہوں نے ملک بھر میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جلسے ہوں گے تو جلوس بھی ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں ٹکرائو بھی ہوسکتا ہے۔ لگتا ہے ن لیگ کے شک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پریشر پیدا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کسی لطف کی بات ہے کہ سچ کہیں ایک طرف کھڑا ہنس رہا ہے کہ لڑنے والی دونوں پارٹیاں حق پر ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ دونوں کا بیانیہ بھی ایک ہے۔ دونوں ووٹ کو عزت دینے کی بات پر گامزن ہے پر ان کو ووٹر پر ذرا بھی اعتماد نہیں کہ وہ اپنے منہ سے اعتراف کر چکے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔ بے چارے سراج الحق اپنی عقل الگ میں جمائے ہوئے ہیں مگر ان دیوانوں کا اقتدار کی راہداریوں سے گزر ممکن نہیں۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی نیا نہیں کہ سب کو کہیں نہ کہیں پلانٹ کر کے پالا پوسا گیا۔ یہ کمال کی بات ہے کہ جس بچے کا فیڈر چھنتا ہے وہ بلکنے لگتا ہے اور ہاتھ پائوں مارتا ہے۔ ایسی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جھگڑا یہی ہے کہ ہمیں تخت پر بٹھایا جائے۔ مخالف تو چور ڈاکو ہیں ان سے تو مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔ اب ایک مثبت تبصرہ بھی ہو جائے یعنی مثبت اقدام پر۔ آپ اس فیصلے کو پریشر کا اثر کہہ لیں یا کچھ اور مگر وزیراعظم شہبازشریف نے کسانوں کو بڑا پیکیجیاہے کھاد کی بوری 2500 روپے سستی کی اور بجلی 13 روپے فی یونٹ۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ بے چارے کسان ہمارے لیے محنت کرتے ہیں۔ اچھا کیا کہ ان کے لیے سبسڈی کے لیے تیس ارب روپے مختص کئے گئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ آلو کی فصل ہوئی تو آلو مارکیٹ میں اتنا سستا ہو گیا کہ ان کے اخراجات بھی کیا ترسیل کے اخراجات بھی پورے نہ ہو رہے تھے تو انہوں نے منوں آلو نہروں میں بہا دیئے۔ ہماری تو دعا ہے کہ ملک میں امن و آشتی ہو‘ خوشحالی آئے‘ یہ جو لوگ ایک اذیت میں ہیں کہ حالات سدھر ہی نہیں رہے کاش یہ دبائو سے نکل جائیں۔ کیا کریں بس ایسے ہی سے پہلے کورونا آیا پھر سیلاب اور اب یہ اقتدار کی جنگ۔ اب تو مارشل لاء کی باتیں ہونے لگیں اور اس بات پر افسوس۔ آپ پھر وہی دور دیکھنا چاہتے ہیں جو ضیاء الحق اور مشرف کا تھا۔ مارشل لاء کسی بھی ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوسکتا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے اور اس حوالے سے وہ سب سے اہم ادارہ ہے عوام اپنی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ان کی نذر کرتے ہیں کہ وہ دشمن سے بے نیاز ہو کر چین سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہماری فوج تو بہت زیادہ قربانیاں بھی دے چکی ہے۔