صحافتی کیرئیر کے دوران وفاقی دارالحکومت میں متعدد مارچ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہر مارچ کے ساتھ عوام کی تلخ و شریں یادیں وابستہ ہیں ، 29اکتوبر کو جماعت اسلامی نے فلسطینی عوام سے اظہار یک جہتی کیلئے تاریخی غزہ مارچ کا اہتمام کیا جس نے گذشتہ تمام مارچ کے ریکارڈ توڑ دئیے ہر طرف عوام کا پر امن ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ہر شعبہ زندگی اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کار کنان نے بلا تفریق اس مظاہرہ میں شر یک ہوئے۔ پاکستانی عوام کے جذبات دیدنی تھے بچے ، جوان ، بوڑھے اور خواتین حتی کہ معذور افراد نے بھی بھر پور شرکت کی سب اپنا اپنا فرض چکانے کیلئے آبپارہ چوک میں جمع ہوئے اور ریڈیو پاکستان چوک تک پر امن مارچ کیا ۔ ملک بھر سے قافلوں کی آمد رفت کے سلسلہ کا آغاز نماز ظہر کے بعد ہوا جو کہ مارچ کے اختتام اذان مغرب تک جاری رہا غزہ مارچ کی اہم بات یہ تھی کہ اس کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت میں کسی قسم کوئی امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا اور نہ ہی کاروبار زندگی معطل ہوا حتی کہ کھیل کے میدان بھی آباد رہے۔ ایمبیسی روڈپر واقع پلے گرائو نڈ میں معمول کے مطابق کرکٹ میچ ہو رہے تھے کسی نے بھی ان میں خلل ڈالنے کی کوشش نہیں کی اس روز فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کیخلاف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے جس میں لاکھوں افراد کی شرکت نے ثابت کیا کہ فلسطینی عوام تنہا نہیں عالمی میڈیا کی رپورٹس گواہ ہیں کہ اسرائیل تمام انسانی و بنیادی حقوق کی پامالی کی حدیں کراس کر چکا ہے، اسرائیلی بمباری سے سیکڑوں نومولود پیدائش سے قبل ہی موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ یونیسف کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر روز اسرائیلی بمباری سے 430بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں جس سے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیل کا سب سے بڑا مقصد جنگ کی آڑ میں فلسطینی قوم کی نسل کشی کرنا ہے۔ اقوام متحدہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فلسطین میں جام شہادت نوش کرنے والوں میں 70فیصد سے زائد تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان تمام عالمی اداروں کی مصدقہ رپورٹس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی حمایت کا اعادہ کر رہے ہیں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ تمام انسانی وبنیادی حقوق کی پاسداری صرف اور صرف کمزور کے لئے رہ گئی ہیں کسی طاقتور یا جارح کیلئے ان قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ،حما س کے کارکنان اسرائیلی مظالم کے باوجود بنیادی و انسانی حقوق کا خیال رکھے ہوئے ہیں اور انھوں نے کسی اسرائیلی بچے یا خاتون کو جنگ کے دوران نقصان نہیں پہنچایا موجودہ جنگ میں فلسطینی بچوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کیخلاف'' سیودی چلڈرن''کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ کے دوران اسرائیلی مظالم سے شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد گذشتہ پانچ سال کے دوران دنیا بھر میں لقمہ اجل بننے والے بچوں سے کہیںزیادہ ہے دکھ اس بات کا ہے کہ یہ سب حقائق جاننے کے باوجود جنگ بند ی کی مخلصانہ کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی اسرائیل کو سبق سیکھانے کیلئے کوئی صف بندی کی جارہی ہے۔ قطر، ترکی اور ایران نے اسرائیل کیخلاف جراتمندانہ موقف اختیار کرکے اپنے حصہ کی شمع ضرور جلائی ہے جس کی دیگر ممالک کو بھی پیروی کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین کے سربراہ فلپ لیزانے نے دنیا بھر کے193رکن ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ فوری بند کی جائے ورنہ چند روز میں خوراک اور ادویات کی بندش سے مزید لاکھوں فلسطینی بچے ، خواتین اورمعمر افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور اگر اسرائیل نے اپنا جارحانہ رویہ تبدیل نہ کیا اس سے اس کا اپنا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ صرف فلسطینی ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا کے نمائندہ بھی بن چکے ہیں صرف 20روز میں کوریج کے دوران درجنوں صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔جراتمند صحافت کے علمبرداروں کو سلام ہے کہ انھوں نے اسرائیلی کیخلاف'' مہذب دنیا''کے شدید دبائو کے باوجود علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے اور اسرائیلی مظالم سے پوری دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں ۔تاریخ ہمیشہ مقابلہ کرنے والوں کی لکھی جاتی ہے میدان سے بھاگ جانے والوں کی نہیں، اسرائیل اور حماس کی طاقت کا موازنہ کیا جائے ہمیں معلوم ہو گا کہ حماس کے کارکن واقعی اسد اللہ ہیں ۔اسرائیل سمیت پورے دنیا میں کوئی مائی کا لعل ان کا بال بھی بانکا نہیں کرسکتا، حماس القسام بریگیڈ کے نہتے جانثاروں کی تعداد صرف 40,000 ہے جبکہ اسرائیل کی جدید اسلحہ سے لیس ریگولرآرمی دو لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے افرادی قوت کے اعتبار سے اسرائیل آرمی حماس کے القسام بریگیڈ سے 5گنا بڑی قوت ہے جس کو دنیا کی نام نہاد سپر پاور کی حمایت حاصل ہے اور جس کے پاس جنگ میں استعمال کیا جانے والا ہر مہلک ہتھیار موجود ہے ،کسی طرح خواہ وہ وسائل کے اعتبار سے ہو اسرائیل اور فلسطین کا کوئی موازنہ نہیں۔ فلسطین کی فی کس سالانہ آمدن صرف7370امریکی ڈالر جبکہ اسرائیل کی فی کس سالانہ آمدن44060امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ ایسی صورتحال میں حماس کے جانثاروں کا اسرائیل کو للکارنا کیا کسی معجزہ سے کم ہے؟ اسرائیل رقبہ کے اعتبار سے بھی غزہ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ چاروں طرف سے اسرائیلی مظالم میں گھیرے ہوئے غزہ کا کل رقبہ 139سکوائر فٹ ہے جبکہ اسرائیل کا کل رقبہ 8355سکوائر فٹ سے بھی زیادہ ہے بات مختصر ہے کہ حماس اور اسرائیل کا کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں لیکن اس باوجود غزہ کے عوام نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ کسی صورت غزہ کو خالی نہیں کریں گے۔ اسرائیلی آگ و بارود ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، جو قوم موت سے دوستی کرلے اس کو شکست نہیں دی جاسکتی جس قوم میں والد اپنے بیٹے کی شہادت پر مٹھائی تقسیم کرے کیا وہ قوم شکست سے دوچار ہو سکتی ہے ہر گز نہیں یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ فلسطینی قوم ناقابل شکست ہو چکی ہے اور فلسطین کی آزادی کا سورج جلد طلوع ہونے والا ہے۔