دسمبر کے آتے ہی کچھ زخم تازہ ہوجاتے ہیں، جس میں سانحہ مشرقی پاکستان سرِ فہرست ہے۔ اگر آپ سعودی ایئر لائنز، قطر ایئر ویز اور اتحاد پر یورپ یا امریکہ جائیں تو آپ کو جدہ، دوحہ اور دوبئی کے ایئرپورٹس پر چند گھنٹے لازماًگزارنا پڑتے ہیں۔ یہاں پر آپ کو بطورِ خاص بنگالی نوجوان نہایت تندہی سے مختلف خدمات سر انجام دیتے نظر آئیں گے۔ جب کہ اس محنت اور جانفشانی کی بدولت، اس وقت بنگلہ دیش کا جی ڈی پی ہمارے سے کہیں بہتر ہے، جو کہ پاکستان کا 346.3،جبکہ بنگلہ دیش کا 416.3 ہے۔ ہمارے خطے کے عسکری ادب میں صدیق سالک کا نام ازحد معروف اور معتبر ہے۔ موصوف نے اسلامیہ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور پنجاب یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ڈپلو مہ کے بعد، کچھ عرصہ لیکچرار رہے اور پھر صحافت کے خارزارسے ہوتے ہوئے، افواج ِ پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک ہوگئے۔ وہ اسی حیثیت میں مشرقی پاکستان گئے، جہاں 16 دسمبر1971ء کو ہزاروں ہم وطنوں سمیت اسیر ہوئے اور دو سال تک بھار ت کی قید میں رہے۔ اس سانحے اور ماہ وسال کی تلخ احوال، انہوں نے اپنی کتاب’’ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘میں لکھا ہے۔ جس کی اوّلین فصل سے چند سطریں قارئین کی نذر ہیں:’’میں جب راولپنڈی سے ڈھاکہ روانہ ہوا، تو رختِ سفر بڑا مختصر تھا، مگر میرے ذہن میں خیالات کا وزن بہت بھاری تھا۔ یہ خیالات ملکی سالمیت سے متعلق تھے۔ مگر اس وقت مجھے اس سلسلے میں ہندوستان کی امکانی جارحیت کی بجائے اندرونی سیاست کے مدوجزر کا زیادہ احساس تھا، کیونکہ مغربی پاکستان میں جہاں میں نے بیس پچیس سال گزارے تھے، یہ تاثر عام تھا کہ مجیب کے چھ نکات، علیحدگی کی درپردہ سکیم کا دوسرا نام ہے اور بعض حلقوں میں یہ بات بھی اکثر سننے میں آئی تھی کہ 1968ء کی اگر تلا سازش بھی اس سکیم کو بروئے کار لانے کیلئے عملی اقدام تھا۔ان باتوں میں کہاں تک صداقت تھی اور کہاں تک تعصب، اس کا مجھے علم نہ تھا،میں نے سوچا کہ بنگالی بھائیوں سے براہ راست ملوں گا،تو صورتِ حال خودبخود واضح ہوجائیگی۔ ان دنوں مشرقی پاکستان میں پچیس ہزار کے لگ بھگ فوجی تعینات تھے۔ میں سرکاری فرائض کے سلسلے میں انہی میں شامل ہونے جارہا تھا، مگر 1800 کلومیٹر میں پھیلے ہوئے وسیع ہندوستانی علاقے کے اوپر پرواز کرتے ہوئے باربار خیال آرہا تھا کہ اگر ہندوستان نے ہم پر حملہ کردیا، تو کیا یہ پچیس ہزار فوجی موثر طور پر مشرقی پاکستان کا دفاع کرسکیں گے؟میں ایک سچے پاکستانی کی طرح، ان خیالات سے آنکھیں بچانے کے لیے ماضی کی ان بوسیدہ دلیلوں میں پناہ ڈھونڈھنے لگا کہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ ہی میں تو رکھی گئی تھی ۔قرارداد پاکستان جو 1940ء میں لاہور میں منظور ہوئی، ایک بنگالی لیڈر ہی نے تو پیش کی تھی‘‘ پھر ڈر کا ہے کا؟انہی خیالات کے جھْرمٹ میں، مَیں تیج گاؤں (ڈھاکہ) ایئر پورٹ پر اترا۔ زمین پر سبزے کے قالین بِچھے تھے اور آسمان پر نقرئی بادل مسکرارہے تھے۔ بدلیاں تو بہت تھیں، مگر بِکھری بِکھری۔ ان کی اوٹ اتنی گھنی اور گہر ی نہ تھی کہ ہنستے ہوئے سورج کا چہرہ مکمل طور پر آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ،،فضا معتدل سی اور ماحول سکون آمیز سا! میرے ساتھ،اسی جہاز سے بعض فوجی افسر اترے جو مارشل لاء ڈیوٹی سے متعلق تھے۔ وہ کسی اور ہی ہوا میں تھے، دراتے ہوئے وی آئی پی لاؤنج میں گئے اور گہرے اور دبیز صوفوں میں سستانے لگے۔ باہر بنگالی قْلی ہانپتے اْن کا سامان گورنمنٹ ہاؤس کی نقرئی پلیٹوں والی گاڑیوں میں لادنے گلے۔ آناً فاناًوہ باہر نکلے اور گاڑیوں میں بیٹھ کر ایئر پورٹ سے نکل گئے۔ میں دوسرے برآمد ے میں کھڑا کسی مناسب سواری کا انتظار کرنے لگا(راستے میں جہاز کی خرابی کی وجہ سے مَیں نے فلائٹ بدل لی تھی، مگر اس کی اطلاع ڈھاکہ نہ پہنچا سکا تھا)۔تھوڑی دیر بعد ایک فوجی جیپ میرے قریب آکر رْکی۔ حوالدار نے مْجھے سمارٹ ساسلیوٹ کیااور پاس سے گْزرتے ہوئے ایک بنگالی لڑکے کو بھبک دار لہجے میں حْکم دیا:’’صاب کا اٹیچی کیس جیپ میں رکھو‘‘۔سہمے ہوئے لڑکے کو یہ بھبک ناگوار گزری، مگر اپنے آقا پر ایک احتجاجی نگاہ ڈالتے ہوئے حکم بجا لایا۔ اس نے گھورکر میری طرف بھی دیکھا۔ اس کے سیا ہ چہرے کے چوکھٹے میں سفید سفیدآنکھیں وحشت کا احساس لیے ہوئے تھیں۔ مَیں نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے، مگر حوالدار نے پرزورلہجے میں کہا :’’سر، اِن حرامزادوں کی عادت نہ بگاڑیے‘‘میں نے مشورہ مان لیا ۔اور بنگالی لڑکا ایک بار پھر نفرت بھری نگاہیں،مجھ پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ایئرپورٹ کی بلندو بالا عمارت پر پرچم ستارہ ہلال پوری آب و تاب سے لہرارہا تھا۔ میں چھاؤنی روانہ ہوگیا۔ جو دوست مجھے ایئرپورٹ پر لینے نہ پہنچ سکے تھے، شام کو آفیسر ز میس میں آئے، بڑے تباک سے ملے۔ اپنی غیر حاضری کی معافی مانگنے لگے۔ رسمی گفتگو کے بعد مشرقی پاکستان کی صورتِ حال زیر بحث آئی تو، انہوں نے اس’’غیر مناسب‘‘موقع پر جبکہ حالات دگرگوں ہور ہے ہیں، مشرقی پاکستان میں تقرری پر مجھ سے ہمدردی کا اظہا ر کیا۔ اس کے علاوہ وہ پندونصائح سے بھی نوازا، نمونے کے چند موتی حاضر ہیں:’’یہاں عملی طورپر مارشل لا ء کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘ ’’گھرداری کے لیے ہرگز بھاری بھاری چیزیں نہ خریدنا، کیا معلوم کب اور کن حالات میں یہاں سے بستراگول کرنا پڑے۔‘‘ ’’اپنا روپیہ پیسہ شہر کے کمرشل بنک کے بجائے چھاؤنی کے نیشنل بنک میں رکھوانا۔‘‘ ’’اور ہاں!اپنے پیش رو کے فلیٹ ہی میں ٹکے رہنا، یہ صندوق نما فلیٹ بڑا محفوظ ہے۔ اس میں کوئی شر پسند آسانی سے بم نہیں لڑھکا سکتا۔‘‘میرے خیال میں یہ سب وہم تھے، ورنہ کسی بنگالی کو کیا پڑی ہے کہ میرے گھر میں بم پھینکے۔ صورتِ حال خراب سہی،مگر اتنی نہیں کے شعلے اچانک بھڑ ک اٹھیں۔میں نے دوستوں کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی پاکستان سے’’کمک‘‘یعنی بیوی بچوں کو بلوانے کے لیے تار بھیج دیا۔ چند روز میں وہ پہنچ گئے تو انہیں اپنے مورچہ نما فلیٹ میں متعین کردیا۔ بچوں کے آتے ہی اگلے روزبنگالیوں کا ایک ہجوم گھر پر ٹوٹ پڑا، مگر وہ شرپسند نہ تھے، محض محنت مزدوری کرنے والی عورتیں تھیں جو’’آیا‘‘ کے طورپر ملازمت کرنے کی خواہش مند تھیں۔ بنگالی عورتیں مغربی پاکستانیوں کے گھروں میں ملازمت کو ترجیح دیتی تھیں۔ جیسے تقسیم ہند سے پہلے ہندوستانی خانسامے اور بیرے کسی انگریز کے ہاں نوکری کو بہتر سمجھتے تھے۔ دوسرے تیسرے دن معلوم ہوا کہ میری بیوی نے دو نوکرانیاں ملازم رکھ لی ہیں۔بظاہر یہ سراسر فضول خرچی تھی، مگر جب بیوی سے جواب طلبی کی، تو وہ کہنے لگی’’فکر نہ کیجئے ان دونوں کی تنخواہ ہمارے راولپنڈی والے واحد ملازم کی تنخواہ سے کم ہوگی‘‘میں نے فکر کرنا چھوڑدیا۔ گھر آباد کرنے کیلئے برتنوں کی ضرورت پڑی، تو میں ڈھاکہ سے 14 کلو میٹر دور ٹونگی میں پاکستان سرامک انڈسٹریزگیا۔ راستے میں افلاس اور غریبی کے ایسے ایسے درد ناک مناظر دیکھنے میں آئے کہ ملازمت کیلئے ماری پھرتی، آیاؤں، کی بے چینی سمجھ میں آگئی۔ راستے میں جو عورتیں نظرآئیں، ان کے پاس ستر پوشی کے لیے چندچیتھیڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کی سیاہ جلد میں منڈھی ہوئی پسلیاں چلتی گاڑی سے بھی گنی جاسکتی تھیں۔ بچوں کی حالت بڑوں سے بدتر تھی۔ ان کی ہڈیاں کمزور اور جسم نحیف تھے۔ کمزور ٹانگوں کے اوپر کھڑی ہوئیں توندیں باہر کو امڈ رہی تھیں۔ بعض بچوں کی کمرکے گردگندہ سا دھاگا بندھا تھا، جس سے ایک گھنٹی لٹک رہی تھی، یہ ان کا واحدکھلونا تھا‘‘۔