قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے والے کیلئے معافی کا وقت گزر چکا۔وزیراعظم نے آٹا اور چینی اسکینڈل کی انکوائری رپورٹس پبلک کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔ تحقیقات میں حکومتی شخصیات کے نام آنے کے باوجود وزیراعظم نے رپورٹ پبلک کروائیں ۔ ذمہ داروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی اوراربوں روپے کی وصولیاں ہوں گی۔وغیرہ وغیرہ! پی ٹی آئی ر ہنماؤں اورسوشل میڈیاپر موجود سپورٹرز نے حکومتی اقدام کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادئیے۔اسی اثناء میں پاورسیکٹر اسکینڈل کی رپورٹ بھی وزیراعظم کو پیش کردی گئی جس میں قومی خزانے اور عوام کو 4ہزار802ارب روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا۔ عوام پرامید تھی کہ حکومت آٹا اور چینی اسیکنڈل کی طرح ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ بھی سرکاری طور پر پبلک کرے گی ۔ حکومتی ارکان کی تمام ترمخالفت کے باوجود وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے رپورٹ پبلک کرنے کی راہ ہموار کی۔وفاقی کابینہ نے 21اپریل کو ناصرف رپورٹ پبلک کرنے کی باضابطہ منظوری دی بلکہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کیلئے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظوری دے کر اربوں روپے بٹورنے والوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ۔کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اسد عمر نے پرجوش ویڈیوبیان جاری کرکے انکوائری رپورٹ پبلک کرنے اور انکوائری کمیشن کے قیام کی خبر پر مہر ثبت کردی۔تاہم9روز گزرنے کے باوجود 4ہزار802ارب روپے کے اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ پبلک ہوئی اور نہ ہی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ خبر یہ ہے کہ انکوائری رپورٹ پبلک کرنے اور کمیشن کے قیام کا معاملہ کھٹائی میں ’ڈال‘ دیا گیا ہے۔کابینہ میں شریک کچھ شخصیات کی کاوشیں بالآخر کارگر ثابت ہوئیں اورممکنہ طورپر’کمپرومائز‘ کرلیا گیا ہے۔وہی کمپرومائز جو عرصہ درازسے قومی مفاد کے نام پر مختلف ادوار میں ہوتارہا ہے۔ 288صفحات پرمشتمل انکوائری رپور ٹ روزنامہ 92نیوزاور 92نیوز ٹی وی نے 11اپریل کو بریک کرکے تمام حقائق عوام تک پہنچائے۔ دیگرمیڈیا چینل اور اخبارات نے بھی بعدازا ںاس رپورٹ کو خصوصی کوریج دی ۔ دوروز قبل وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالنے والے شبلی فراز نے بھی ٹی وی پروگرام میںرپورٹ پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے آئی پی پیز کے غیرمنصفانہ منافع پر بحث میں خوب حصہ لیا۔میڈیا اورعوام پرامید ہوگئے کہ وزیراعظم نے کابینہ میں موجود پاور پلانٹس کے مالکان اورطاقتور آئی پی پیز لابی کے کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک بڑا فیصلہ کرلیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں غریب عوام کو گرینڈ ریلیف ملے گا۔قومی خزانے اور عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں فوجداری کارروائی ہوگی مگر اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں اور انکے سیاسی اورسرکاری دست راست قانون کی پکڑ میں نہیں آسکیں گے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر 6رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ یہی کمیٹی جس کے ممبران کے قریبی عزیزواقارب کے پاورپلانٹس کے نام بھی آئے تھے‘اب بند کمروں میں بیٹھ کر مذاکرات کرکے آئی پی پیز مالکان کو ٹیرف میں کمی پر راضی کرے گی۔ لگتا ہے کہ’ کمپرومائز ‘کا یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں احتسابی عمل میں بھی دکھائی دے گا۔2دسمبر 2019ء کو روزنامہ 92 نیوز نے اس خاکسار کی خبر کو سپرلیڈ کے طور پر شائع کیا تھا جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھاکہ وفاقی حکومت نے مستقبل قریب میں نیب کی ممکنہ کارروائیوں سے وزرائ‘ارکان پارلیمنٹ‘ بیوروکریسی اور سرکاری افسران کو محفوظ رکھنے کیلئے نیب آرڈیننس میں 31اہم ترین ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت عوامی عہدوں پر فائز شخصیات‘بیوروکریسی اور سرکاری افسران کے خلاف نیب انکوائری کا سلسلہ مشروط اورچیئرمین نیب کے اختیارات انتہائی محدود کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ بیوروکریسی اور سرکاری افسران کے خلاف نیب انکوائری 6رکنی سکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بعد شروع ہوسکے گی۔ نیب کسی بھی عوامی عہدہ رکھنے والی شخصیت یا کوئی بھی فرد جس کے اثاثے ‘انکم ٹیکس ریٹرن‘ـویلتھ ٹیکس سٹیٹمنٹ‘ڈیکلریشن آف ایسٹس میں ظاہر کئے گئے ہوں‘ـ انکے خلاف کارروائی کا مجازنہیں ہوگا۔ بے نامی اثاثوں رکھنے پر بھی نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔ نیب لامحدود عرصے کے بجائے 6ماہ میں انکوائری کرنے کاپابندجبکہ ملزمان کو 90روزکیلئے ریمانڈ پر اپنی تحویل میں نہیں رکھ سکے گا۔ نیب پرکسی وزیر‘رکن پارلیمنٹ‘تاجر یا کسی بھی فرد کے خلاف ریفرنس دائر ہونے سے پہلے بیان جاری کرنے پرپابندی عائد ہوگی ۔ نیب آرڈیننس میں صدررمملکت کو حاصل اہم ترین اختیارات وفاقی حکومت کو منتقل کردئیے جائیں گے۔عوامی عہدہ رکھنے والی شخصیت نے اپنے نام پر رکھے اثاثے انکم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہ کئے ہوں اور انکی مالیت 50کروڑ روپے سے زائد ہوتو نیب انکوائری کرنے کا مجاز ہوگا۔حکومت نے 28دسمبر 2019ء کو سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے صر ف تین ترامیم پرمبنی آرڈیننس جاری کردیا۔ اپوزیشن اور حکومتی شخصیات اس بات پر متفق تھیں کہ عوامی عہدیداروں اور بیوروکریسی کو نیب کے شکنجے سے بچانے کیلئے جلد مزید ترامیم کی جائیں گی۔ نیب قانون میں ترامیم کیلئے کمیٹی قائم ہوچکی‘وزارت قانون کے ڈرافٹسمین نے ابتدائی مسودہ بھی تیارکرلیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اگرچہ حتمی مسودہ تیار کرنے کی تردیدکی ہے مگر انہوں نے مسودے میں موجود مجوزہ ترامیم حتمی مسودے میں شامل نہ کئے جانے کی وضاحت نہیں دی۔ بہرحال حتمی مسودے میں ترامیم کم وبیش یہی ہونی ہیں جو سب کو نیب تحقیقات سے محفوظ بنانے کے خواب کو حقیقت کا روپ دیں گی۔وزیراعظم کے بعض بولڈ اقدامات سے عوام یقینابے حد خوش تھے مگر آنے والے دنوںمیں ان تمام کرداروں کیساتھ’ کمپرومائز‘ کی راہ ہموارہوچکی ہے جو ملک و قوم کیساتھ بڑی واردات میں ملوث رہے ہیں۔ بقول شاعر: محبت بری ہے‘ بری ہے محبت !!! کہے جارہے ہیں‘ـکیے جا رہے ہیں