کشمیریوں کی مہمان نوازی کابہت مداح ہوں‘میں جب بھی کشمیر آیا یہاں کے لوگوں نے آنکھوں پر بٹھایا۔مجھے یادہے گیارہ سال قبل جب یہاں آیا تھا تو میرے اعزاز میں کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا‘مختلف تعلیمی اداروں میں سمینارز اور ادبی نشستوں کا اہتمام تھا‘میری کتاب کی تقریب ِ پذیرائی کا بھی انتظام کیا گیا تھا‘وہ ایک یادگار وزٹ تھا۔اب جب کشمیر جائوں تو ادبی تقریبات میں شرکت سے گریز کرتا ہوں کیوں کہ وہاں جانے کا مقصد سیاحت ہوتی ہے‘کشمیر کی خوبصورت وادیوں ‘پہاڑوںاور آبشاروں کے ساتھ وقت بتانا ہوتا ہے لہٰذا اب جانے سے قبل صرف ایک آدھ دوست کو مطلع کرتا ہوں اور نکل پڑتا ہوں۔ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی قیام باغ میں تھا ‘باغ کا مقام اور یہاں کے لوگ انتہائی شفاف اور خوبصورت ہیں‘خوبصورت پہاڑوں میں گھری یہ وادی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔باغ کے ارد گرد تین سے چار اہم سیاحتی مقامات ہیں۔یہاں کے لوگ سیاحوں کو اپنا فیملی ممبر سمجھتے ہیں‘ان کو معلوم ہو کہ کوئی سیاح کسی پریشانی میں ہے تو یہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ان کے دل اور دروازے سیاحوں اور مہمانوں کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔میں باغ میں کسی دکان پر گیا یا کسی رکشے والے سے بات کی‘مجھے کشمیری زبان میں ایک ہی جواب ملا ’’ آپ ہمارے مہمان ہیں‘آپ پیسوں کی بات نہ کریں‘‘،یہ رویہ میرے لیے واقعی حیران کن تھا۔ ہم راولا کوٹ پہنچے تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی‘ ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد بنجوسہ پہنچے‘ وہاں کی سیاحت نے روح کو سرشار کر دیا۔ راولا کوٹ میں ہی نو ہزار فٹ کی بلندی پر ایک اور سیاحتی مقام تولی پیر بھی ہے‘یہ بھی ضلع پونچھ میں آتا ہے۔ تولی پیر ایک ہل اسٹیشن ہے جس کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے جن کے مزار کے آثار اب بھی موجود ہیں۔یہ تحصیل راولا کوٹ کا بلند ترین مقام ہے جو تین پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے‘یہاں پورا سال سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔یہاں بھی مسافروں کے لیے نجی آرام گاہوں اور طعام گاہوں کا انتظام کیا گیا ہے جہاں سیاحوں کا رش دیکھنے والا ہوتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے لوگ کشمیرکے اس اہم ترین مقام پر کئی گھنٹے قیام کرتے ہیں‘یہاں کے رسم و رواج اور لوگوں کے رویوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنے اندر نئی تازگی اور روشنی بھرنے کے بعد گھر کو روانہ ہوتے ہیں۔ باغ کا ایک اہم ترین سیاحتی مقام گنگا چوٹی ہے۔ یہ پیر پنجال کے پہاڑوں میں واقع ہے اور اس کی بلندی 3044میٹر(9989 فٹ) ہے۔یہ اسلام آباد سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور شمال مشرق کی طرف ہے‘باغ سے آپ بذریعہ جیپ سدھن گلی سے ہوتے ہوئے گنگا جھیل کی جانب جاتے ہیں۔یہ جگہ باغ کا اہم ترین سیاحتی مقام ہے‘گنگا جھیل سے گنگا چوٹی کا پیدل سفر دس سے پندرہ منٹ کا ہے۔یہ چوٹی کوہ پیمائوں کے لیے ایک آسان پوائنٹ ہے لیکن طوفانوں کے باعث کوہ پیما مارے بھی جاتے ہیں۔اس چوٹی سے کوہ ہمالیہ کا انتہائی خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے‘اس چوٹی سے دریائے جہلم کو پانی ملتا ہے،باغ کے مشرقی جانب واقع گنگا چوٹی کی کہانی انتہائی دکھ بھری ہے۔گنگا چوٹی کا قدیم نام گل بانو تھا‘ گل بانو ایک چرواہے کی بیٹی تھی۔ اس پہاڑی پر بکریاں چراتی تھی‘ یہ 1901ء سے 1931ء تک کا زمانہ تھا‘ لوگ گل بانو کی محنت اور خوبصورتی سے بہت متاثر تھے لہٰذا اس علاقے کے لوگ اس پہاڑی پر گل بانو کو دیکھنے جایا کرتے‘اسی وجہ سے ایک عرصے بعد اس پہاڑی کو گل بانو کے نام سے منسوب کر دیا گیا یعنی گل بانو پہاڑی۔ ایک دن ایک نوجوان بلغاریہ سے شکار کی غرض سے وہاں پہنچا‘اس نے اس پہاڑی پر اپنا خیمہ لگایا اور صبح جب اس کی نظر گل بانو پر پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پر دل ہار بیٹھا۔اس نے گل بانو سے اظہار محبت کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ اس کا نام گنگا ہے اور وہ بلغاریہ سے ہوں‘گل بانو نے جواب میں اسے اپنا نام چوٹی بتایا اور اسی دن اس نوجوان نے اس پہاڑی پر ایک تختی نصب کی جس پر ’’گنگا چوٹی‘‘لکھا۔کہانی تو بہت طویل ہے ‘بس اتنا عرض کروں کہ وہاں کے مکینوں کے بقول گنگا نے چوٹی کے والد سے رشتہ مانگا‘اس نے انکار کیا اور نوجوان گنگا کے انتظار میں شدید بیمار ہو گیا اور آخر کار جان سے ہاتھ دھو بیٹھا‘چوٹی نے بھی اس غم میں اس چوٹی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی اور اس دن سے اس چوٹی کو ان دونوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔یہ کہانی سچ ہے یا جھوٹ مگر وہاں کے مکین اور انٹرنیٹ ہمیں یہی یا اس سے ملتی جلتی کہانی سناتا ہے سو یہی تعارف سچ لگتا ہے۔میں نے گنگا چوٹی پر پورا ایک دن گزارا‘اس سیاحتی مقام سے بھرپور لطف لیا اور شام کے قریب یہاں سے رخصت ہوئے۔ باغ کے قریب لسڈنہ ‘تلہ واڑی‘ریشیاں اور لیپہ وادی بھی انتہائی خوبصورت اور سرسبز ہے۔میں گزشتہ سفر میں ان علاقوں میں بھی ایک ایک دن کے لیے گیا تھا جس کی روداد پھر کسی کالم میں ضرور ذکرکروں گا۔ تین دن کا یہ سیاحتی سفر انتہائی یادگار رہا‘ہم بیس مارچ کو باغ سے اسلام آباد پہنچے جہاں عصر کی نماز فیصل مسجد میں ادا کی اور کچھ دیر پاکستان مونومنٹ میں گزارنے کے بعد مونال پر کھانے کے لیے پہنچے ‘زوجہ کے ساتھ اس پرفضا مقام پر عشائیہ کیا اور لاہور کے لیے رخت  سفر باندھا۔اس بار ٹرین کی بجائے بس کے ذریعے لاہور کے لیے نکلے کیوں کہ ریلوے اسٹیشن جانا اور ایمرجنسی میں دوبارہ اکانومی کا ٹکٹ لینا گوارا نہیں تھا‘اگر ریلوے کا آن لائن بکنگ نظام بہتر ہوتا تو اس خواری سے بچا جا سکتا تھا۔ آزاد کشمیر کا یہ سفر انتہائی یادگار اور خوبصورت رہا جس کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر شرافت حسین اور ان کی زوجہ ماجدہ کو جاتا ہے‘جنھوں نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی اس سفر کو خوش گوار بنایا۔