مکرمی !بجلی کے گھریلو صارفین کا بنیادی یونٹ ٹیرف تقریباً ساڑھے سات روپئے بڑھنے سے بیالیس روپئے پچھتر پیسے اور سیلز ٹیکس کے بعد پچاس روپئے اکتالیس پیسے کا ہو جانے سے ملک بھر میں بجلی کی ہوش ربا گرانی کے ردِ عمل کے طور پر احتجاجی سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔عوام پہلے ہی اشیاء ضروریہ اور دیگر اشیاء پر کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں عاجز آ چکے ہیں کہ بجلی گیس کی یوٹیلٹی کمپنیوں کے ہاتھوں چالیس سے پچاس فیصد عائد ٹیکسز سے ایک عام گھرانے کا بجلی بل پچیس سو سے بڑھ کر آٹھ ہزار ماہانہ تک جا پہنچا ہے سولر پینل سے حاصل توانائی نہ صرف سستی بلکہ بجلی پر انحصارکو کم سے کم کرنے میں بہترین معاون مگرحکومتی وعدوں اور دعوؤں کے برعکس ان پرکسٹم ڈیوٹی کم ہوئی نہ عائد ٹیکسز میں عوام کو کوئی ریلیف ملا۔سندھ کے علاقے جھم پیر کی طرح ونڈ انرجی پیدا کرنے کے تجربات پر ملک بھر میں کام کرنے اور منصوبے لگانے کی ضرورت تھی مگر اس پر بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔چولستان ،تھل ،تھر اور دیگر میدانی علاقے جو سارا سال تیز ہواؤں کی زد میں رہتے ہیں بجلی کی بے پناہ پیداوار کے لئے موزوں ترین ہیں ۔ پانی بجلی کی قلت پر منصوبوں کا آغاز وقت کی ضرورت ہے اور قابل تجدید انرجی ذرائع نہایت سود مندہیں۔قدرت کی ان نعمتوں کو استعمال میں لا کر ملکی کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ عوام پر مالی بوجھ دشواریاں کم کرنا ریاست کا فرض ہے۔ ( امتیاز یٰسین‘ فتح پور)