حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر ؒ،فرمایا :صوفی وہ ہے جو میلے کچیلوں کو صاف کرے اور خود ان سے گدلا یا میلا نہ ہو۔ برصغیر میں قافلہ تصوف اور شریعت وطریقت کے امام الاولیاء الشیخ السید علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کا آستانہ سب سے بڑا روحانی مرکز ہے ۔سید ہجویر ؒکے علمی اور روحانی فیوض و برکات کی ترویج وتبلیغ کے لیے محکمہ اوقاف پنجاب ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے ۔اس برس بھی عالمی تصوف کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مصائب ومشکلات اور تذبذب و تشکیک کی شکار امت مسئلہ کو حضرت داتا گنج بخشؒ کے حیات بخش فرمودات اور ان انقلاب آفرین تعلیمات سے روشناس کرایاجائے۔ راقم نے ایک بار شیخ سے تصوف کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: صوفی اور عالم دین کے مابین ایسافرق ہے۔ جیسے چاند اور ستاروں کا ، آفتاب اور ماہتاب کا ۔ اگر کوئی غور کرے ،تو یہ بڑا فرق ہے، بہت ہی بڑا۔وہی فرق جو لفظوں اور عمل میں ہوتا ہے۔ عالم باعمل کا اپنا ہی مقام ہے ،مگرایک صوفی کے شب و روز اور شخصیت کی تصویر کشی بھی سہل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:روزِ قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی، شہدا ء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔ قرآن کریم کے کچھ ظاہری معنی ہیں اور کچھ باطنی راز ۔ ظاہری معنی پر بحث کرنے والا عالم اور باطنی اسرار سے گفتگو کرنے والا صوفی ہے۔عالم وہ جو بتاکر سمجھائے اور صوفی وہ جو دکھا کر مسئلہ حل کردے۔عالم وہ جس پر اطاعت غالب ہو اور صوفی وہ جس پر عشق غالب ہو۔عالم وہ جو صاحب قال ہو اور صوفی وہ جو صاحب حال ہو۔ لوگوں کو کچھ تو اندازہ ہو کہ ایک صوفی کی زندگی کیا ہوتی ہے۔ خدا کی مخلوق کے درمیان، کس طرح وہ اپنے شب و روز اپنے خدا کے ساتھ بسر کرتا ہے۔ یہ کرامت کس طرح رونما ہوتی ہے کہ سارے دکھ دور ہو جاتے ہیں، کوئی خوف باقی رہتا ہے نہ غم اور حزن۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں، کوئی مطالبہ اور تقاضا ہی نہیں، قرآن کہتا ہے : الا ان اولیا اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ اللہ کے دوست وہ ہیں، جو کبھی خوف اور حزن سے دوچار نہیں ہوتے۔ آج کل ہمارے علماء کے اندر مدرسوں میں رہنے کی وجہ سے علمِ نبوت تو آجاتا ہے لیکن نورِ نبوت نہیں آتا، جس طرح یہ علمِ نبوت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح انہیں نورِ نبوت کی تحصیل میں بھی سعی کرنی چاہیے۔ جس کے لیے اہلِ دل کی صحبت وخدمت ضروری ہے۔ عالم کا سونا عبادت کیوں؟فرمایا عالمِ دین جس کا اوڑھنا بچھونا دین ہے اور ہمہ وقت دینی خدمت میں مصروف رہتا ہے اللہ کے نزدیک اس کا بڑا اونچا مقام ہے، ایسے عالم کا دیکھنا بھی عبادت ہے اور اس کا سونا بھی عبادت۔ عالم کے سونے پر حضرت پھولپوری ؒ سے ایک واقعہ نقل ہے۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ سے سوال کیا حضرت! حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا سونا بھی عبادت ہے، مگر اس کا عبادت ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟حضرت گنگوہیؒ نے فرمایا: ایک بڑھئی ایک شخص کا دروازہ بناتاہے، اسے اپنے کام کے دوران بعض اوزاروں کو پتھر پر گھسنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے تاکہ اوزار کے تیز ہوجانے کے بعد اس سے تیزی کے ساتھ کام لے، بتایئے بڑھئی جب اوزار کو تیز کررہا ہوتا ہے، اس وقت دروازہ تو وہ نہیں بناتا لیکن اسے اس وقت کی مزدوری ملے گی یا نہیں؟ پوچھنے والے نے جواب دیا، ہاں ضرور ملے گی۔ پھر حضرت گنگوہی ؒ نے فرمایا: جب ایک بڑھئی کو اوزار تیز کرنے کے وقت کی مزدوری ملے گی اور یہ وقت مزدوری ہی میں شمار ہوگا، منہانہ کیا جائے گا، اسی بنیاد پر کہ اوزار کو تیز اس لیے کیا جارہا ہے کہ آئندہ اسی سے کام لے گا، تو سوچئے کہ ایک عالم بھی تو اسی لیے سوتا ہے تاکہ سونے کے بعد اس کی تھکن اور اضمحلال دور ہو اور نشاط، مستعدی اور چاق و چوبندی کے ساتھ دین کی خدمت کرسکے، اس صورت میں اس کا سونا کیوں نہ عبادت قرار پائے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی مزدوری کیوں کاٹی جائے، جب کہ اللہ کے بندے کے یہاں ایک بڑھئی کی مذکورہ بالا صورت میں مزدوری نہیں کٹتی ہے۔ کچھ علماء کرام اس ٹھاٹھ کیساتھ رہتے ہیں کہ ان سے دور رہنے ہی میں عافیت ۔خطاکار ان کے قریب نہیں جاتے کہ آلودہ نہ گردانے جائیں، تحقیر کی نگاہ سے نہ دیکھے جائیں اور مستردنہ کئے جائیں۔مگر صوفی سے دور کوئی نہیں ہوتا۔ کبھی اورکسی حال میں بھی، صوفی اپنے سینے میں بغض نہیں پالتا۔ بغض کیا ، وہ شکایت ہی نہیں کرتا۔ حسد اور عناد کو اپنے باطن سے اس طرح دھو ڈالتا ہے ، جیسے کوئی نجیب آدمی پیرہن کے داغ کو، اس کی امیدیںآدمیوں سے نہیں اللہ سے وابستہ ہوتی ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے درمیان، وہ انہی میں سے ایک ہو کر جیتاہے۔ ان کا اکرام کرتا ہے اور کبھی کسی حال میں، خود کو ان سے افضل نہیں گردانتا۔ صوفی شکایت نہیں کرتا، اس کی جان پر صدمات نہیں گزرتے۔ سحر سے شام اور شام سے سحر تک، وہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے اور آسودہ ہو جاتاہے۔ صوفی شیخ ہجویرؒ کے مزار کی سیڑھیاں چڑھ کر حیران لوٹتا، لیکن فخر نہ غرور ، یہی انکسارعالم دین اور صوفی میں ایک فرق ہوتا ہے۔ صوفی کبھی کوئی دعویٰ نہیں کرتا ، وہ سبھی سے رعایت برتتا ہے۔ اہلِ عرفان کہتے ہیں: ہر صوفی صاحبِ علم ہوتا ہے لیکن ہر صاحب علم صوفی نہیں۔ تصوف کیا ہے ؟ شریعت کی نیت، خالص ، کھری اور سچّی نیت۔ ادھر شکایت ہی نہیں، شکایت کا شائبہ تک نہیں۔ صوفی یہی کرتا ہے۔ مار ڈالتا ہے ، وہ آدمی کو مار ڈالتا ہے۔ علماء ِ دین بھی یہی کرتے ہیں مگرقہر و غضب سے ، خوف اور زعمِ تقویٰ سے۔ عالمی تصوف کانفرنس میں وطنِ عزیز پاکستان سمیت معاصر اسلامی دنیا تیونس،یمن،برطانیہ، افغانستان ،ایران،ہندوستان کی معروف دانش گاہوں ، علمی حلقوں اور روحانی درگاہوں کی معتبر شخصیات تشریف فرماہوئیں،آخری روز چنیدہ کالم نگار بھی۔ سہ روزہ عالمی کانفرنس اب عرس تقریبات کی جزو لایفک بن چکی ہے۔کانفرنس کے روح رواں اور موجد سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری ہیں ،جو کامیاب تقریبات پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مذہبی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں،کیا مستقبل میں یہ روایت برقرار رہ سکے گی ؟دنیا امید پر قائم ہے مگر منظر نامہ دھندلا سا ہے ۔وزیرمذہبی امور سید اظفر علی ناصر، ،ڈی جی اوقاف آصف علی فرح ،ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن آصف اعجاز،اسسٹنٹ ڈائریکٹرمذہبی امور حافظ جاوید شوکت ،ایگزیٹو آفیسرداتا دربار نعمان سیفی ،ایڈمنسٹریٹر داتا دربا شاہد حمیدورک ،ترجمان اوقاف شیخ قیوم ،منیجر داتا دربا طاہر مقصود،منیجر محمد عرفان ،منیجرشیخ آصف مصور، مشتاق احمد ریسرچ فیلو،طارق نجمی اور محمد ناصر سمیت جملہ احباب نے جس طرح عالمی تصوف کانفرنس کو کامیاب بنایا ،وہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ خواجہ نظام الدین اولیائؒ کا قول ہے "اگر کسی نے کانٹا رکھ دیا اور جواب میں تم نے بھی کانٹا رکھا تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائیگی۔