نجی ٹیلی ویژن کی گزشتہ روز ٹیلی تھان دیکھ رہا تھا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب اس ٹیلی تھا ن میں مسلسل دو گھنٹے تک تشریف فرما رہے۔نیچے مسلسل ٹکر پر بینک اکاؤنٹ نمبر چلتا رہا۔ ۔ ۔ خود مجھے بھی ماضی میں ٹیلی تھان کرنے کا تجربہ رہا ہے۔آنکھوں کے مشہور ادارے LRBTکی امداد کے لئے ٹیلی تھان کی تھی Seeing Is Believing۔ ۔ ۔ میرے ساتھ شریک میزبان فریال گوہر تھیں۔چند مقامی تاجر و صنعت کار بھی شریک ِ گفتگو تھے۔کم و بیش ایک کروڑ روپیہ دو گھنٹے کی اس ٹیلی تھان سے جمع ہوا۔ جو ہم نے LRBTکے اکاؤنٹ میں جمع کرادیا۔اسی طرح تعلیم کے حوالے سے ایک معتبر ادارے TCFکے لئے بھی جو ٹیلی تھان کیا تھا،وہ بھی دوگھنٹے کا ہی تھا،اُس میں بھی ڈیڑھ کروڑ روپے ہماری اپیل پر لوگوں نے دئیے تھے۔غالبا ً دس سال پہلے ڈالر کی قیمت 60روپے تھی۔اس طرح ان روپوں کو کم از کم تین گنا زیادہ سمجھ لیں۔تعلیم اورآنکھوں کے حوالے سے کوئی بہت بڑی ایمر جنسی یا آفت نہیں آئی ہوئی تھی۔مگر اُس وقت اسکرینوں کا اور ان اداروں کا اتنا اعتبار تھا اور ہے کہ لوگوں نے صرف ہماری اپیل پر اتنی رقوم دی تھیں۔ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ LRBT,TCFاورSIUTکے سالانہ بجٹ 300سے400کروڑ ہیں۔ اس میں سے 70سے 80فیصد عام لوگوں کے عطیات پر چل رہے ہیں۔محض یہ تین ادارے ہی کیا،ملک میں کم از کم درجن سے اوپر ایسے فلاحی ادارے ہیں جن کا بجٹ 200کروڑ سے اوپر تو ہوگا۔اور بحمد للہ دہائی اوپر سے نہ صرف یہ خوش اسلوبی سے کام کررہے ہیں بلکہ ان کی خدمت کا دائرہ بتدریج وسیع بھی ہوتا جارہا ہے۔ان میں سے کسی ادارے کو کبھی پرنٹ اور الیکٹرانک میں اشتہارات دینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور نہ ہی ٹیلی تھا ن کی ۔ ۔ ۔ خود مجھے ذاتی تجربہ رہا ہے، کہ چند سال پہلے تک اپنے وزیر اعظم عمران خان کے شوکت خانم کے رمضان شریف میں جو فنڈ ریزنگ کے لئے افطار ڈنر ہوتے تھے، اُس میں سے کسی میں بھی گھنٹے بھر میں دس کروڑ سے کم جمع نہیں ہوتے تھے۔کراچی میں ہونے والے ایک ٹیلی تھان میں جو غالبا ً 2015کو ہوا تھا، میںخود میزبانی کے فرائض انجام دے رہا تھا،ایک لمبی لائن اس لئے کھڑی تھی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے خاں صاحب سے ہاتھ ملا کر cashاورchequeدینے کے خواہشمند تھے۔ آدھے گھنٹے میں ساڑھے آٹھ کروڑ روپے کے عطیات دئیے گئے۔ اس ساری تمہید کا مقصد نہ تو اپنی خودنمائی ہے، اورنہ ہی نجی ٹیلی ویژن کی ٹیلی تھا ن پر تنقید ۔ ۔ ۔ بصد احترام صرف یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ عوام کا بد قسمتی سے اپنی حکومت پر trustکتنا کم ہوگیا ہے،یعنی اعتبار کی کتنی کمی ہے ۔ ۔ ۔ کورونا وائرس کی آفت جب سے آئی ہے وزیر اعظم عمران خان قوم سے کم از کم تین خطاب کرچکے ہیں۔ہر خطاب میں وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں 15جنوری کو چین میں جب کورونا وائرس کے کیس آنے شروع ہوئے تو یہ آگاہی ہوگئی تھی کہ اِسے پاکستان میں بھی آناہے۔انتہائی معصومانہ سوال اپنے محترم وزیر اعظم سے کرنے کا جی چاہتا ہے کہ خود آپ کے دعوے کے مطابق جب15جنوری کو آپ اور آپ کے حکومتی اور ریاستی ادارے اس سے آگاہ ہوچکے تھے تو ان تین ماہ کے دوران ایسا کوئی میکنزم آپ کیوں نہیں بنا سکے۔ جس کے ذریعے خود آپ کے کہنے کے مطابق 25فیصد یعنی ساڑھے 5کروڑ daily wagesیعنی دیہاڑی پہ کام کرنے والوں کو امداد پہنچانا کورونا وائرس سے زیادہ مشکل taskہے۔ ۔ ۔ ؟ تواتر سے اعلانات ہورہے ہیں کہ احساس پروگرام یعنی بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے ایک کروڑ 20لاکھ کارڈ ہولڈروں کو 12ہزار کی رقم مہیا کردی جائے گی۔ابھی دو ماہ پہلے ہی اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے جو سوا کروڑ مستحقین کو امداد دی جارہی تھی،اُن میں 18 لاکھ ایسے سرکاری ملازم تھے جو جعل سازی کے ذریعے یہ رقوم ہڑپ کرجاتے تھے۔سو،اول تو حکومت ساڑھے پانچ کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوںتک پہنچنے کا کوئی mechanismنہیں بنا سکی ۔ ۔۔ اور پھر اگر آنے والے دنوں میں جیسا کہ لگ رہا ہے کہ وہ بنانے میں کامیاب بھی ہوجائے گی ۔تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ان عادی سرکاری کرپٹ ملازمین کے ہوتے ہوئے مستحقین کی اکثریت تک پہنچ سکیں۔ جہاں تک راشن پہنچانے کا تعلق ہے،تو اس میں بھی بڑے دعوے کئے جارہے ہیں۔ ۔ ۔ اسکرینوں اور تصویروں میں تقریبا ً روز ہی دکھایا جارہا ہے کہ پولیس نہیں رینجرز کے ہوتے ہوئے سڑکوں پر سامان سپلائی کرتے ہوئے وہ چھینا جھپٹی اور ہاتھا پائی نظر آتی ہے کہ شرم کے مارے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ اس ساری ناقدانہ گفتگو کا قطعی مقصد یہ نہیںکہ حکومت کے خلاف جو اپوزیشن مہم چلا رہی ہے ،اُس کا حصہ بنا جائے۔صرف درخواست یہ ہے کہ حکومت کے وزیر،مشیر اور اہلکار اسکرینوں پر آکر بڑے بڑے بیانات دینے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا واقعی وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں؟ کون نہیں جانتا اورخود الیکشن کمیشن میں ہمارے اراکین ِ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز چند ماہ پہلے ہی الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں کا اعلان کرچکے ہیں۔ کم از کم 70 فیصد ایسے ارکان تھے جنہوں نے اربوں روپے کے بینک اکاؤنٹ اور اثاثے بتائے تھے۔جب ہم جیسے عام لوگوں کی رمضان کے مہینے میں بینکوں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کاٹ لی جاتی ہے تو کیا الیکشن کمیشن سے یہ فہرست حاصل کر کے زکوٰۃ جتنی رقم کاٹ کر 150ارب روپیہ حاصل نہیں کیا جاسکتا؟ اس کی دوہائی ہمارے محترم وزیر اعظم ہفتے بھر سے دے رہے ہیں۔ ۔ ۔صاف بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف trustیعنی اعتبار کا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں اور اشرافیہ نے جس طرح کروڑوں،اربوںکی لو ٹ مار کر کے اپنی عمارات کھڑی کی ہیں ، اور جس طرح پاکستان کی 40فیصد عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا ہے، اُس سے آج عوام کا بلکہ اُن صاحب ِ حیثیت اور صاحبِ ایمان لوگوں کا بھی حکومت پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہمیشہ اپنا موازنہ پڑوسی دشمن ملک بھارت سے کرتے ہیں۔مجھے کبھی اچھا نہیں لگتا کہ اُس کی مثال دوں۔محض چند نام بتا رہا ہوں کہ ہندوستا ن کے ایک صنعتکار مکیش انبانی نے 1500کروڑ کا عطیہ دیا ہے۔ ایک لمبی فہرست ان دنوں سوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہے کہ جس سے بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری فنڈز میں جمع ہونے والی رقوم چند ارب میں بھی نہیں ہوپارہی۔ ۔ ۔ جبکہ پڑوسی ملک میں یہ کھربوں تک پہنچ گئی ہے۔کیاہماری بے حس ریاست اور حکمراں جو ہر بات میں ہندوستان اور ہندوؤں سے اپنے کو بہتر ثابت کرتے ہیں،کیا اِس سے کچھ سبق سیکھیں گے؟ ملک میں لاک ڈاؤن کر کے کروڑوں لوگوں کو گھروں میں نظر بند کیا جاسکتا ہے ، تو کیا حکمراں طبقہ اور اشرافیہ کے اکاؤنٹوں کو ’’لاک ڈاؤن ‘‘کرکے اتنی رقوم حاصل نہیں کی جاسکتیں کہ جس سے daily wagesیعنی دیہاڑی پر کام کرنے والے 5کروڑ لوگوں کے گھروں کا چولہا جل سکے ؟ ہائے رے بے بسی،ہائے رے بے حسی