خلیل جبران کا قول ہے ’’اس نے کہا میں نے مان لیا اس نے پھر کہا تو مجھے شک گزرا اس نے تیسری بار وہی بات قسم اٹھا کر کہی تو مجھے یقین ہو گیا وہ جھوٹ بول رہا ہے‘‘ جب میں کسی حکمران سے جب کسی ادارے کے سربراہ سے جب کسی سیاستدان سے جب کسی میڈیا پرسن سے ایک بات بار بار کہتے سنتا ہوں تو نہ جانے کیوں مجھے یونانی دانشور خلیل جبران یاد آ جاتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس عظیم انسان کی یہ بات انسانی نفسیات کی ایک خامی کی بالکل درست عکاس ہے جب کوئی بھی شخص جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی اس بات کو بار بار دہراتا ہے۔ اگر سننے والا اس پر یقین کر لے تو وہ پھر بھی اپنی اس بات کے ساتھ قسم اٹھا دیتا ہے آپ کبھی کپڑا بیچنے والے کی نفسیات کا جائزہ لیں آپ دیکھیں گے وہ تھان کھولتے ہی گاہک کو اپنا بھائی یا بہن ڈیکلیئر کر دیتے ہیں بار بار کہتے ہیں کہ بس آپ کو خرید کے برابر دے رہا ہوں۔ اس خریداری کے دوران وہ دو چار دفعہ قسمیں بھی کھا جاتے ہیں لیکن گاہک کو چند روز بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ بولے بھائی یا بہن کے ساتھ اچھا خاصا ہاتھ کر گیا ہے۔ اس طرح کے تجربات اور مشاہدات سے آپ سب گزرے ہوں گے۔ آپ اشتہارات میں دیکھ لیں جس پروڈکٹ کی بار بار پبلسٹی میں اس کی خریداری کے حوالے سے جو خوبیاں اور اثر انگیزی بیان کی جاتی ہے وہ کبھی بھی صد فیصد دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو اس کا شاہکار عملی مظاہرہ دیکھنا ہے تو کسی اسٹیٹ ایجنٹ کی دکان پر جا کر اس سے خریداری کے حوالے سے گفتگو کر لیں پھر آپ دیکھیں گے وہ اپنی گفتگو کا آغاز ہی قسم کھا کر شروع کرے گا آپ کسی سرکاری دفتر کے باہر کھڑے ایجنٹوں سے کوئی بھی کام کرانے کی بابت دریافت کر کے دیکھ لیں وہ آپ سے رشوت کے ریٹ پر بھی قسمیں کھا کر یقین دلائے گا کہ وہ جو کچھ مانگ رہا ہے وہ آپ کی جیب پر سب سے کم بوجھ ہے۔ آپ ذرا حکمرانوں کے وعدوں کا جائزہ لیں آپ ایوب خان کے جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے وعدوں کا حشر دیکھیں۔ یحییٰ خاں نے کہا جو جیتے گا اقتدار اسے دوں گا۔ ملک ٹوٹ گیا اقتدار نہیں دیا۔ بھٹو نے کہا روٹی کپڑا مکان ملے گا۔ اپنے متعدد کارناموں کے باوجود اپنا انتخابی وعدہ روٹی کپڑا مکان پورا نہیں کر سکے۔۔ ضیاء الحق نے 90دن کے انتخابات کا وعدہ کیا۔ گیارہ سال تک اقتدار پر براجمان رہے۔ 90کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے جو انتخابی وعدے کئے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ گو کہ ان پر 58-2Bکی آئینی تلوار چلتی رہی۔ مقتدرہ سیاست میں حصہ نہ لینے کا یقین دلاتی رہی لیکن ہر قدم پر مداخلت ہوتی رہی۔ مشرف آئے تو وہ وعدے کرتے رہے توڑتے رہے۔ جمہوریت کا نام لیتے رہے کہ اپنے لئے سیاسی حریفوں کی کلائیاں مروڑتے رہے۔ پھر نیا دور شروع ہوا آصف علی زرداری اس کے شہسوار بنے۔ ترقی و خوشحالی کی نوید سناتے رہے لیکن جب یہ دور ختم ہوا تو ہوشربا سکینڈلز اور کرپشن کی داستانیں بکھری پڑی تھیں۔ نواز شریف کا دور آیا ایشین ٹائیگرز بنانے کی خوشخبری سنائی لیکن بہت سے اچھے کاموں کے باوجودکے وعدے پورے نہیں کئے۔2018ء میں عمران کا دور شروع ہوا۔ نیا پاکستان بنانے‘ کروڑ نوکریاں 50لاکھ گھر اور وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوس کو یونیورسٹیاں اور پلے گرائونڈز بنانے کے سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ساتھ ساتھ مہنگائی کا تڑکا لگا تو لوگ بری طرح سٹپٹا گئے۔ شہباز شریف آئے تو سونے پر سہاگہ خود کو امید قرار دینے والوں نے عام لوگوں کا قرار اور چین لوٹ لیا۔ اب تینوں حریف پھر میدان عمل میں ہیں۔ اپنے اپنے منشور پیش کر رہے ہیں۔ عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں ۔ وہ اپنی سیاسی حماقتوںکے سبب ایک جیتا ہوا میچ ہار گئے۔ اب جیل کے سلاخوں کے پیچھے انہیں بہت سے زمینی حقائق کا ادراک ہو رہا ہو گا۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کے ساتھ پنجاب کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل اور 9مئی کے واقعات نے انہیں رنگ کے کارنر تک محدود کر کے رکھ دیا ہے انہیں شاید یہ احساس بھی ہو رہا ہو گا کہ پاکستانی سیاست میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ قبولیت کتنی اہم ہے۔ لیکن میں جس عمران خان کو 40سال سے جانتا ہوں وہ نہ انقلابی ہیں اور نہ ہی چوائن لائی کی طرح ویژنری ‘ نیلسن منڈیلا کی طرح بے پناہ برداشت اور درگزر رکھنے والا دل و دماغ رکھتے ہیں اور نہ یہ خمینی کی طرح کسی نظریے پر عملی راسخ العقیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ دیر تک آزمائشوں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کر کے انہوں نے اپنی سیاسی مخالفین کو حیران ضرور کیا ۔ پاکستان کی تاریخ اور نشیب و فراز کے وہ عینی شاہد ضرور ہیں بعض حقائق کو انہوں نے عقل و شعور کے دور میں دیکھا اور بہت سے حقیقتیں اور سچائیاں ان کے مشاہدے میں ضرور رہی ہوں گی لیکن سچ پوچھیں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ادراک نہ کر سکے۔ ورنہ ضد اور ٹکرائو کے بجائے وہ معاملہ فہمی کے ساتھ اپنی انا کے پہاڑ سے نیچے ضرور اتر آتے جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ اگر 9مئی نہ ہوتا تو شاید انہیں ایسے حالات سے پالا نہیں پڑتا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے جس منشور کا اعلان کیا ہے وہ بظاہر خاصا پرکشش ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ میں طویل حکومت اور کارکردگی کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ وعدے تو ہو سکتے ہیں لیکن عام آدمی کو یہ یقین نہیں کہ یہ وعدے نبھائے بھی جائیں گے۔ پیپلز پارٹی محض صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اس پر طرہ یہ کہ سندھ میں اس کی کارکردگی کا کوئی بھی انڈیکٹر ایسا نہیں جو وہ مثال بنا کر پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کو متاثر کر سکے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ کو اپنے سیاسی گڑھ پنجاب میں بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی تمام تر ٹوٹ پھوٹ کے ایک مضبوط حریف کے طور پر اس کے سامنے کھڑی ہے۔ آج صورتحال 2013اور 2018والی نہیں رہی۔ عمران خان نے نوجوانوں کی جو ذہن سازی کی ہے اور جتنی بڑی تعداد میں 18سال سے 35سال کے نوجوان ووٹر لسٹ میں داخل ہو چکے ہیں وہ یقینا نواز شریف کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ نواز شریف پہلے کی طرح پنجاب میں بہت مضبوط وکٹ پر نہیں۔ لیکن وہ بظاہر اپنے دونوں حریفوں سے اس لئے آگے نظر آ رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں قبولیت کی سند صاف نظر آ رہی ہے۔2024ء کے انتخابات میں بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔اسی طرح سے جیسے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کا چیک کیش نہیں کرا سکیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو بھی اس بار بڑی مزاحمت کا سامنا ہے لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ حکومت جو بھی بنائے عوام کا کیا بنے گا ۔کیا ایک بار پھر انہیں جھوٹے وعدوں سے بہلایا جاتا رہے گا؟