یوں لگتا ہے مملکت ِ خداداد پاکستان کی پچھہتر سالہ کرم خوردہ، دیمک زدہ اور مخدوش عمارت کی ازسرنو تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادوں میں چھپے وہ تمام ’’کیڑے مکوڑے‘‘ جنہوں نے اس عمارت کو کھوکھلا کیا، وہ سب اپنی آخری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کوئی ایک طبقہ ایسا نہیں جو فخر سے اپنا سر بلند کر کے کہہ سکے کہ اس پچھہتر سالہ لوٹ مار میں اس کا حصہ نہیں رہا۔ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ اس مرحوم قوم کے تن مُردہ میں گوشت نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام گِدھیں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ بات اب نظامِ عدل کی بلند و بالا عمارتوں کے بڑے بڑے ایوانوں تک جا پہنچی ہے۔ دنیا کا ابتدائے آفرینش سے یہ اُصول رہا ہے کہ جب جھگڑا بڑھ جائے، تصفیہ کرنا ممکن نہ ہو اور کوئی انصاف سے کام نہ لے تو پھر آپس میں دست و گریباں گروہ، کسی جرگے، پنچائت اور جدید دور میں عدالت جا پہنچتے ہیں۔ اُجڈ، گنوار، جاہل اور تہذیب کی روشنی سے ناآشنا لوگ جو غاروں، درختوں کی کھوئوں یا چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہا کرتے تھے ان کے ہاں بھی اس قدر شعور موجود تھا کہ وہ جب اپنا معاملہ کسی پنچائت یا جرگے کے سامنے لے جاتے تو مکمل بھروسے اور اعتماد کے ساتھ لے جاتے اور ان کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتے اور مِن و عن اس پر عملدرآمد کرتے۔ جرگے یا پنچائت میں اگر رائے کا اختلاف بھی آتا تو اسے اس معاملے کی حد تک رکھا جاتا اور زیادہ سے زیادہ فیصلے میں اختلاف کیا جاتا۔ لیکن ایسا تو ’’گنوار‘‘ قبائلیوں اور ’’تہذیب ناآشنا‘‘ دیہاتیوں میں بھی کبھی نہیں ہوا کہ ان کے جرگہ ممبران یا پنچائت کے پنچ آپس میں دست و گریباں ہو جائیں اور پوری بستی دم بخود رہ جائے کہ اب ان کو ٹھنڈا کون کرے گا۔ پاکستان میں جہاں اور لاتعداد بُرائیوں کے آغاز کا سہرا شریف خاندان کے سر بندھتا ہے، وہیں عدلیہ کے اندرونی اختلاف کو عوام میں تماشہ بنانے کے مکروہ فعل کا آغاز بھی انہی ’’ذاتِ شریف‘‘ کی عطا ہے۔ دوسری دفعہ جب نواز شریف دو تہائی اکثریت سے جیت کر آئے تو پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ ہر کسی کو غلام بنانے کی دُھن ان کے سر پر سوار تھی۔ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ فیصل آباد کے دورے پر گئے اور اپنے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کے کیمرے بھی لے گئے۔ ایک کھلی کچہری لگی، مسلم لیگ کے رہنما اور نواز شریف کے رشتے دار شیر علی کو محکمہ انہار کے ایک شریف النفس آفیسر پر غصہ تھا کہ وہ ان کی بات نہیں مانتا۔ یہ آفیسر اس قدر ایماندار تھا کہ گذر اوقات کے لئے رات کو ہومیو پیتھک کلینک کرتا تھا۔ شیر علی اس کے خلاف دھاڑ رہا تھا اور دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کا چہرہ لال ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور پھر ایک دم فرمانِ شاہی جاری ہوا۔ ہتھکڑی لگا دو اور اس آفیسر کے ساتھ تین اہل کاروں کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ازخود نوٹس لیا اور کہا کہ یہ وزیر اعظم کوئی شہنشاہ تو نہیں کہ صوبائی معاملے میں مداخلت کرتا پھرے اور ان چاروں کو بحال کر دیا۔ چیف جسٹس کا یہ اقدام نواز شریف کی آمرانہ طبیعت کو ناگوار گزرا۔ اتنے میں ایک اور واقعہ ہو گیا۔ واپڈا اپنی وصولیوں کی ایک مہم پر نکلا ہوا تھا، کہ چیف جسٹس نے یہ وصولیاں روک دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کابینہ کی میٹنگ میں انتہائی حقارت کے لہجے میں کہا، ’’دیکھو یہ کیا کر رہا ہے‘‘۔ ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ نواز شریف کے دماغ میں دہشت گردی کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا خمار چڑھا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں دہشت گردی برائے نام تھی، لیکن نواز شریف کا ’’مزاجِ شاہانہ‘‘ عام عدالتوں کے متوازی عدالتیں قائم کرنا چاہتا تھا۔ چیف جسٹس سجاد شاہ اس پر راضی نہ تھے۔ بات یہاں تک آ پہنچی کہ چوہدری نثار علی خان کو ’’حکم‘‘ دیا گیا کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف قرارداد لے کر آئیں۔ قرارداد کے متن کی ذمہ داری اس وقت کے سیکرٹری قانون اور سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ذمہ تھی، جنہوں نے شہباز شریف کے ذریعے غصہ ٹھنڈا کروایا مگر جذبہ انتقام ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس کے بعد وہ کھیل شروع ہوا جس نے پاکستان کے عدالتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کوئٹہ بنچ میں تعینات اپنے ’’منظورِ نظر‘‘ جج حضرات کو سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ کرنے کو کہا۔ کوئٹہ میں ہونے کی وجہ سے اس سارے ’’ڈرامے‘‘ کا میں عینی شاہد ہوں۔ پٹیشن جمع کروائی گئی۔ سجاد علی شاہ نے رجسٹری کے دفتر کو تالہ لگوا کر متعلقہ افراد کو اسلام آباد بلوا لیا۔ راتوں رات تالہ توڑا گیا اور تین ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پٹیشن سننا شروع کر دی۔ بحرانوں کا ’’دیوتا‘‘ شریف الدین پیرزادہ وہاں دلائل دیتا اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے میں جسٹس رفیق تارڑ ایک بریف کیس کے ہمراہ کوئٹہ کے ایئر پورٹ پر اُترے۔ بنچ نے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا۔ لیکن اس کے جواب میں چیف جسٹس نے بنچ کا حکم کالعدم قرار دے دیا، مگر جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے اپنے ہی چیف جسٹس کا حکم معطل کر دیا۔ نواز شریف نے سجاد علی شاہ کی جگہ اجمل میاں کو چیف جسٹس بنانے کی سمری صدر فاروق لغاری کو ارسال کی کیونکہ کوئٹہ بنچ نے انہیں سب سے سینئر قرار دیا تھا۔ یہاں سے کشمکش اپنے عروج پر جا پہنچی، نواز شریف نے کابینہ میں دعویٰ کیا کہ فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت ہمارے ساتھ ہیں، لیکن صدر کے پرنسپل سیکرٹری شمشیر علی خان لکھتے ہیں کہ ایک دن میٹنگ کے بعد جہانگیر کرامت میرے دفتر آئے اور ایوانِ صدر کے پیڈ پر کچی پنسل سے لکھا "We are with you" (ہم تمہارے ساتھ ہیں) اور کہا کہ یہ صدر کو دے دینا اور چلے گئے۔ ایسے میں 27 نومبر 1997ء کا وہ دن آ گیا جب پنجاب ہائوس سے مسلم لیگ نون کے جتھے اپنے لیڈر کی اَناّ کی تسکین کے لئے سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے اور ججوں کو اپنی جان بچانے کے لئے چیمبر میں چھپنا پڑا۔ چوہدری شجاعت اور گوہر ایوب دونوں اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ’’نواز شریف کہتے پھرتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میں اس چیف جسٹس کو ایک دفعہ ہتھکڑی لگائوں‘‘۔ جب سپریم کورٹ پر حملہ ہو رہا تھا تو سجاد علی شاہ نے آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت فوج کو بلایا لیکن جہانگیر کرامت کی وہ تحریر کچی پنسل کی طرح کچی ہی ثابت ہوئی۔ فاروق لغاری شریف النفس آدمی تھے، استعفیٰ دے کر چلے گئے اور سجاد علی شاہ تین ہفتے کی رُخصت پر روانہ ہو گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے فل کورٹ بنچ بنایا اور سجاد علی شاہ کو بلایا کہ بتائو کہ تمہیں تین سال پہلے غیر قانونی طور پر کیسے چیف جسٹس لگایا گیا تھا۔ فیصلہ ہوا اور اجمل میاں کو پاکستان کا چیف جسٹس لگا دیا گیا۔ انعامات کی بارش میں رفیق تارڑکو صدرِ پاکستان بنایا گیا، سعیدالزمان صدیقی کو پہلے صدارتی اُمیدوار اور پھر بسترِ مرگ پر سندھ کا گورنر لگا دیا گیا۔ قسمت بیچارے جنرل جہانگیر کرامت کی خراب رہی کہ نواز شریف نے ان میں خود داری کے جراثیم دیکھے اور ان سے استعفیٰ لے لیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک بار پھر آئین کی سربلندی کے لئے تمام نادیدہ قوتوں کی پرواہ کئے بغیر فیصلہ کر دیا ہے کہ الیکشن کروائے جائیں۔ دیکھیں اس پر کیسے عمل درآمد ہوتا ہے یا پھر سب دعوے کچی پنسل کی تحریر ثابت ہوتے ہیں۔ وقت بہت بدل چکا ہے، قضاء و قدر کے فیصلے اب کچھ اور ہیں۔ 1997ء کی عدالتی جنگ کو صرف چند افراد، اخبارات یا اقتدار کے ایوانوں میں موجود لوگ جانتے تھے۔ لیکن موجودہ جنگ کے گواہ بائیس کروڑ عوام ہیں جو اب مملکت ِ پاکستان کی تباہی کے ذمے داروں کو خوب پہچان چکے ہیں اور وہ بنیادوں میں چھپے ان کرداروں کو باہر نکال کر دم لیں گے، جنہوں نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے۔ وقت بدل چکا ہے، تقدیر بدل چکی ہے، بوسیدہ عمارتیں گرا کر تعمیر نو کے دن آ چکے ہیں۔