2 مارچ کو بلوچ کلچر ڈے منایا گیا، ملک کے دوسرے زعما کے ساتھ ساتھ سندھ بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ خصوصاً پنجاب کی وزیرا علیٰ محترمہ مریم نواز نے اپنے پیغام میں بلوچ بھائیوں کو بلوچ کلچر ڈے کی مبارکباد دی اور کہا کہ ملک کی تمام ثقافتیں پاکستان کا سرمایہ ہیں اور ثقافت ایک دوسرے کو قریب لانے اور ایک دوسرے کے درمیان محبتیں بکھیرنے کا نام ہے، 6 مارچ کو سرائیکی کلچر ڈے ہے، اسی طرح اسی مہینے پنجابی کلچر ڈے بھی آرہا ہے، سب کی خواہش ہے کہ یہ دن سرکاری سطح پر منایا جائیں اور پاکستان کی تمام ثقافتوں کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں، سرائیکی ثقافت کا دن ایسے وقت آرہا ہے کہ موسم کے ساتھ سیاسی موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں، بلا شبہ بہار رُت میں جب درختوں پر نئی کونپلیں نکلتی ہیں ،پھول رنگ اور خوشبوئیں بکھیرتے ہیں توموسم دلکش اور سُہانا ہوتا ہے اور جب موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے ۔اس موقع پر صرف انسان ہی نہیں وسیب کی ہر شئے محو رقص نظر آتی ہے ۔ اس سہانی رُت میںمورخہ 6مارچ کو وسیب کے واسی ہر سال اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور پوری دنیا کو محبت اور امن کا پیغام بھیجتے ہیں ۔اجرک کا لفظ عربی لفظ ’’ازرق‘‘ سے نکلا ہے ۔جس کے معنی ہیں نیلا رنگ ۔سندھیوں نے بھی سندھی اجرک کی تاریخ اس طرح بیان کی ہے کہ جب عرب افواج علاقے میں داخل ہوئی تو مقامی باشندوں نے نیلی چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور وہ ان چادروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ ازرق ، ازرق کے الفاظ ادا ہوئے ۔پھر ’’’ز‘‘ کا حرف ’’ج‘‘ میں تبدیل ہوا اور یہ اجرک کہلائی جانے لگی ۔ اجرک اس لئے بھی پھیلی ہے کہ زمین و آسمان کا بنیادی رنگ نیلا ہے اور یہ رنگ صوفیاء کا رنگ ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ 21 فروری ماء بولی کا عالمی دن ہے۔پچھلے دنوں لوک ورثہ اسلام آباد کی طرف سے ماء بولی کا قومی میلہ منعقد کیا گیا۔ یہ میلہ پاکستانی زبانوں کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا ۔ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی ، ہندکو، پوٹھوہاری، براہوی، مارواڑی، بلتی، پہاڑی، خوار، گوجری، شینا، اردو ، سب رنگ موجود تھے۔ پاکستانی زبانوں اور ثقافتوں کا یہ گلدستہ بہت خوبصورت اور بھلا نظر آیا کہ سب کے اپنے اپنے رنگ تھے ‘ اپنی اپنی خوشبوئیںتھیں ۔ میلے میں منعقد کی گئی ورکشاپس ، سیمینارز ، کانفرنسوں اور کلچرل شوز کے ذریعے ایک دوسرے کی زبانیں سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ سندھی اجرک کے سٹال پر اجرک بھی فروخت ہو رہی تھی اور یہ سرائیکی اجرکیں حیدر آباد سے بن کر آئی تھیں۔ایک واقعہ یہ ہوا کہ سندھی اجرک کے سٹال پر ایک انگریزجوڑا آیا، دکاندار نے ان کو سندھی اجرک کے ڈیزائن دکھائے ، وسیب کے دوستوں نے سرائیکی اجرکیں پہنی ہوئی تھیں تو انگریز جوڑے نے دکاندار کو سندھ اجرک واپس کرتے ہوئے کہا "Its very beautifull"۔پھر انہوں نے سندھی کی بجائے سرائیکی اجرک لی۔ایک لحاظ سے یہ ایک فیصلہ تھا کہ سرائیکی اجرک بہت خوبصورت ہے۔سرائیکی میں کہا جاتا ہے کہ ’’لکھیا لوہا، اَلایا گٖوہا‘‘ یہ سرائیکی کہاوت پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کر رہی ہے ۔وسیب کے اُردو اخبارات،رسائل اور سرائیکی اخبار جھوک کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبارات میں بھی اجرک کے بارے میں مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ اخبارات ہر سال اجرک ڈے پر خصوصی سپلیمنٹ بھی شائع کرتے ہیں ۔ اسی طرح پی ٹی وی ، ریڈیو اور پرائیویٹ چینلز پر بھی اجرک کے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر تو حد ہو چکی ہے ۔ وسیب کا جو بھی شخص سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ سرائیکی نیلی اجرک کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ پروموٹ کر رہا ہے ۔ وسیب کے شعراء کرام نے اجرک کے بارے میں نظمیں اور گیت لکھے ہیں جن کو وسیب کے گلوکاروں نے خوبصورت دھنوں پر گایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف اجرک کا چرچا ہے اور اجرک ڈے کو قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ اجرک کے اجرا کا اعزاز بندہ ناچیز (ظہور دھریجہ) کوحاصل ہوا لیکن اسے فروغ دینے میں وسیب کے ادیب ، شاعر ، دانشور اور فنکار کسی سے پیچھے نہیں ۔سرائیکی نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طالبعلم تو اجرک کے دیوانے ہیں ۔اسری طرح بہت سی سماجی تنظیموں نے بھی اجرک کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شعراء کرام نے سینکڑوں کی تعداد میں نظمیں لکھیں اور گلوکاروں نے بہترین دھنوں کے ساتھ گایا۔ بہرحال کرافٹ بازار کے ملک عبدالرحمن نقاش کی خدمات بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ انہوں نے خصوصی طور پر اجرک کو ملتانی ڈیزائن میں ڈھالا اور اسے بہت دلپسند اور خوبصورت بنا دیا۔ اس بات کو زمانہ مانتا ہے کہ تحریک کیلئے گزشتہ پچاس سالوں میں جو بڑے بڑے کام ہوئے اجرک کا احیاء ان سب سے بڑا کام تھا۔ جدوجہد کے مسئلے پر اجرک نے ہمیں بہت طاقت دی ہے۔ یہ اجرک میری نہیں قوم کی شناخت ہے۔ جو چیز قومی اثاثہ بن جائے اُس پر کسی کو ملکیت کے دعوے کا کوئی حق نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اجرک اُس رنگ، اس کی افادیت ، اس کی طاقت قوم کی ملکیت ہے ۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وہ خود عجیب لگ رہے ہوتے ہیں اور اُن کی حیثیت خود بخود مشکوک بن جاتی ہے۔ اب ذہنی پسماندگی سے نکل کر شناخت، اجرک اور قوم کا جھنڈہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔