اس بار بہارکی آمد میرے دل پر دستک دیتی رہی اور میں جو بہار کی آمد پر اپنے اندر ایک خوشی اور تازگی سے بھری زندگی کی اک لہر محسوس کرتی ہوں , اس بہار فلسطین کے ان پھولوں کے لیے اداس رہی جو کٹ کٹ کر القدس کی مقدس سرزمین پر گرتے رہے۔ ہائے ہائے بہار فلسطین میں اور ہی ڈھنگ میں آئی ہے لہو میں بھیگی۔۔وحشت ناک موسموں میں باغ کے باغ اجاڑتی۔تتلیوں کے پروں پر لکھا مہینہ مارچ بھی اسی اداسی میں گزر گیا۔سرد موسم کے بعد رت بدلنے کی نوید لے کے آتا بہار کا مہینہ دلوں کو ایک امید سے بھر دیتا ہے، بنجر منظروں میں پھول کھلتے ہیں اور ہماری حس جمالیات کو سیراب کرتے ہیں۔ مارچ کے بعد اپریل بھی بہار کی خوشبو سے مہکتا ہوا مہینہ ہے ،سال کے بارہ مہینے ہی مختلف مزاج کے دوستوں جیسے ہیں۔جیسے آپ اپنے ہر دوست سے مختلف طرح سے ملتے ہیں کیونکہ ہر ایک کی شخصیت کے بگرد ایک الگ ہالہ ہوتا ہے۔ ہر دوست سے ملنے کی فریکوئنسی اور اس سے ربط بنانے والی لہریں مختلف ہوتی ہیں۔اسی طرح سال کے بارہ مہینے بارہ مختلف مزاج کے دوستوں کی طرح ہم سے ملنے کے لیے آتے ہیں۔کہتے ہیں کہ وقت کا گزرنا بھی بھید سے بھرا ہے۔ خوشی کا وقت گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ اداسی ٹھہر جاتی ہے۔ دکھ پڑاؤ ڈال لیتے ہیں اور مشکل وقت کا ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ان بارہ مہینوںمیں بھی وقت کا یہ بھید چھپا ہوتا ہے۔کچھ ایسے تیز مزاج مہینے ہیں کہ تیس دن کا مہینہ ساٹھ دنوں کا لگنے لگتا ہے ۔اور کچھ مہینوں کے مزاج اتنے نرم ملائم کہ ان آمد سے خوش کن موسموں کی نوید ملتی ہے۔ فضا ایک تازگی سے بھر جاتی ہے۔جی چاہتا ہے تیس دن کا مہینہ ساٹھ کا ہو جائے لیکن مہینہ اس سرعت سے گزرتا ہے کہ تیس دن تین دن لگتے ہیں یعنی تیری قربت کے لمحے پھول جیسے مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں۔سال کی پہلی سہ ماہی میں فروری مارچ اور اپریل اور آخری سہ ماہی میں اکتوبر اور نومبر ایسے ہی دوست دار مہینے لگتے ہیں۔ ہر مہینے میں قدرتی حسن اپنے ہی انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے۔کچھ مہینوں میں پھول کھلتے ہیں اور کچھ میں شاخیں اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے پتوں کو جھاڑ کر نئے شگوفوں کا انتظار کرتی ہیں۔درختوں پر انتظار کے اس موسم کا ایک حسین منظر میرے دل میں اترا اور مجھے ایک بے کنار خوبصورتی کے ساتھ بھر گیا ۔یہ جنوری کی یخ بستہ دنوں کی بات ہے میں سیر کے لیے قریبی باغ میں گئی وہاں ایک دائرے میں بنا ہوا قطعہ ہے جس کے اندر دائرے میں ڈاچی مور کے درخت لگے ہیں۔جیسے بچے دائرے میں گول گول گھومتے ایک دوسرے کو پکڑتے ہیں ایسے ہی ڈاچی مور کے یہ درخت گول گول گھومتے ایک دوسرے کو پکڑتے ہوئے نظر اتے ہیں۔ برسوں سے اس باغ میں آنا جانا ہے ان ڈاچی مور کے درختوں کو میں نے چھوٹے قد سے طویل قامت درختوں میں ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے۔ مختلف موسموں میں ان پر مختلف طرح کے رنگ اترتے ہیں مگر جو رنگ ان پر خزاں کے موسم میں اترتا ہے وہ مبہوت کر دینے والا ہے۔ ڈاچی مور کی شاخیں جو ایک طویل تنے کے بعد اوپر جا کر فضا میں بلند ہوتی ہیں۔مور کے پنکھ کی طرح پھیلی ہوئیں بنجر شاخیں دھند آلود فضا میں اٹھی ہوئی اس کے گردا گرد سیر کرتے ہوئے ایک الگ ہی لطف آتا تھا۔ نظر مسلسل ان باریک باریک خزاں رسیدہ شاخوں پر رہتی تھی جو آپس ایسے گلے مل رہی تھیں کہ بنجر شاخوں کا ایک پورا جال فضا تنا ہوا دکھائی دیتا۔دھند کی دبیز تہہ کو چیرتی ہوئی ڈاچی مور کی خزاں آلود شاخوں کا یہ جال ایک طلسم سے بھرا میرے دل کو اسیر کرتا تھا۔ قدرت کے ان حسین رنگوں میں زرد پھولوں سے بھرا املتاس کا مہینہ بھی آتا ہے یہ زرد جادو مئی کہ اوائل میں دلوں پر دستک دیتا ہے اور ہماری نظروں کو لبھاتا اور ہماری روحوں کو خوبصورتی سے بھر دیتا ہے چند مہینے یہ خوبصورتی ہمارے درمیان رہتی ہیں۔پھر کسی اور شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ فطرت کے ان منظروں میں ایسا مرہم ہے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کی رفو گری کرتا ہے۔مارچ کے آتے ہی گیندے کے پیلے اور کیسری۔ پھولوں کے تختے منظروں کو سجا دیتے ہیں۔اپریل کی بہار پرور فضا میں پٹونیا کے پھول زمین پر رنگوں کی ایک چادر سے بچھا دیتے ہیں۔ سورج مکھی کے پھول دن بدن تیز ہو گئی دھوپ کے ساتھ خوش گپیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔گلابوں پر بہار کا بھی یہی موسم ہے رین لیلی ہو یا امریلس للی سفید اور سرخ پھول اپنی سبز جھاڑیوں میں کھلے خوب کھلکھلاتے ہیں۔ یہی اپریل گل نشتر کا بھی مہینہ ہے۔ گل نشتر کے پھولوں سے بھرے ہوئے درخت ہمارے درمیان ہماری توجہ کے طالب ہیں۔شہر کی سڑکوں کے کنارے گل نشتر کی پھولوں کی قطاریں ٹریفک کے ہنگام میں پھنسے مصنوعی زندگی کے اسیر انسانوں پر افسوس کرتی ہیں۔بلند قامت پیڑوں کہ شاخوں پر تمکنت سے کھلے پھول اپنی پتیاں نیچے گراتے ہیں تو سرخ قالین بچھ جاتا ہے۔مسائل میں الجھی ہماری بوجھل زندگیوں میں یہ کھلے ہوئے پھول رنگوں کے چھینٹوں کی طرح سے منظروں کو خوش رنگ بنا دیتے ہیں۔ پروردگار نے یہ پھول ہماری حس جمالیات کی تسکین کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔ گلاب کی پتیاں سے گلقند تیار ہوتی ہے تو سدا بہار کے کاسنی پھولوں کا قہوہ ذیابیطس کے لیے مفید ہے۔میں بہار آور منظروں کو دیکھتی ہوں تو قدرت کی صناعی پر حیرت زدہ رہ جاتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ کاش دنیا میں کوئی غم نہ ہوتا بہار کی آمد پر ہم رنگوں کی سرشاری میں بھیگے رقص کرتے اور کھلتے پھولوں کو دیانت بھری توجہ سے سراہتے۔بہار کے آنے پر ہمارے دل خوشی سے بھر جاتے ہیں۔مگر اب کے برس بہار میرے دل پر دستک دیتی رہی مگر دل کی اداسی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔۔یہ بہار القدس کی سرزمین کو اپنے مقدس لہو سے گل و گلزار کرنے والے غزہ کے پھولوں کے نام ہوئی ۔ افتخار عارف یاد آتے ہیں دل کی وحشت کا اثر کم ہو تو شاید ہاتھ آئے، خس و خاشاک کے موسم میں سراغ گل سرخ