مارچ 1994ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہورہی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن (جو اب کونسل کہلاتا ہے) ،میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ طے تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور بھار ت پر اقوام متحدہ کی طرف سے اقتصادی اور دیگر پابندیا ں عائد کرائی جائیں۔بھارت کا قریبی رفیق سوویت یونین جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا ، ٹوٹ پھوٹ چکا تھا ۔ روس کے نئے سربراہ بور س یلسن خود مغرب سے مدد کے طلبگار تھے۔مگر وزیر اعظم نرسمہا راو نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر ہاشمی رفسجانی کے نام ایک پیام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ رائو نے ایران کو کیا پٹی پڑھائی؟ ایران نے اس قرار داد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو ایک سہارا دیا۔ اس بحران سے نکلنے کے لئے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کئے، ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملہ کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظر بندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔ مگر 2014کے بعد ریڈ کراس کے عملہ نے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی ہے، تو اس پر آن ریکارڈ آنے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے۔ ان کے جیلوں میں جانے سے قیدیوں کیلئے بڑی راحت کی بات ہوتی تھی۔ خاص طور پر جو افراد دور دراز کی جیلوں میں قید کئے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کیلئے پہنچنا مشکل ہوتا تھا، ریڈ کراس کا عملہ ہی نام و پیا م کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پرس کی جاتی؟ بتایا جاتا ہے کہ رائوکی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل، جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصہ تک ترجمان بھی رہے، نے ہی قومی انسانی حقوق کمیشن تشکیل دینے کی صلاح دی تھی۔ رائو کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوہان نے بتایا تھا کہ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لاء اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔ جب بھی کسی فورم پر بھارت کے انسانی حقوق کے کا ایشو اٹھتا ہے، تو مندوبین کا ایک ہی دفاع ہوتا ہے ، کہ ان کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کیلئے ایک مضبوط میکانز م موجود ہے۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اول کی ایکریڈیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ایک ممبر ہے، کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیر فعال ہوچکا ہے۔ بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارہ کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔قومی انسانی حقوق کمیشن کاوجود ہی کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی کیس پر شنوائی کی ہو۔ مگر دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کیلئے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اسلئے اسکی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ یہ شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاںملزمان کو عدالت نے سزائیں دیں۔ اس کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔ مگر بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی تنزل کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانبداری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اسکے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔ساوتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومینٹیشن سینٹر کے سربراہ روی نائر کے مطابق نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو اور خارجی خفیہ ادارہ را سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسوقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے۔ جب حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران کس حد تک انصاف کر تے ہونگے۔ 2019 میں، حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوجبکہ دیگر چار ممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔اس ترمیم میں بتایا گیا کہ سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا۔ کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اہلکار کی تقرری واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کی تقرری انٹیلی جنس بیورو میں انکی مدت کار کے دوران ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث بنتی ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کوکو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے پر قدغن لگائی گئی۔ روی نائرکا کہنا ہے کہ اس پورے کمیشن کاڈھانچہ ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارہ کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ یہ بس بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اسکے کام کاج کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کیلئے سبکی اور شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے اس کی حکومتوں کے بھارت کے تئیں آنکھیں موند لی ہیں۔ 1994سے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاستدانوں کی دھوکہ بازیاں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو ایفا نہیں کر سکے۔