گندمی رنگ اور درمیانی قد وقامت کے حبیب بلوچ میر ے ہم پیشہ دوست ہیں ، ملک کے ایک بڑے چینل میں رپورٹر رہے ،ان کے ہاتھ میں بھی اپنے چینل کا مائیک ہوتا تھا اور میرے ہاتھ میں بھی ،اکثر نیوزکانفرنسوں جلسوں میںملاقات رہتی یا پھر پریس کلب میں مصافحے ہوتے ،حبیب مختلف تھا اس کے لہجے میں بلوچوں والا عمومی کھردراپن تھا نہ مزاج میں درشتگی تھی،ناک پر ٹکی عینک سے اسکالر لگتا تھا ہم دونوں سڑک چھاپ صحافی تھے،اکثر دن بھر کی تھکن لئے مسافروں سے کھچاکھچ بھری منی بس کی چھت پر بیٹھ کرگھرکا رخ کرتے اورگھوڑے گدھے بیچ کر سو جاتے ، گھوڑے گدھے بیچتے بیچتے حبیب بلوچ نے دور کی سوجھی اور وطن کو خیرباد کہہ کر جرمنی پہنچ گیا اور میں یہیں گھوڑے گدھے بیچ رہا ہوں ۔ حبیب پاکستان سے تو نکل گیا لیکن اس میں سے پاکستان نہ نکل سکا اب وہ جرمنی میں بیٹھ کر ملکی حالات پر جلتا کڑھتا ہے ،کل میری حبیب سے بات ہورہی تھی وہ پاکستان کے لئے بہت متفکر تھا اسکے لہجے میں بلا کا دکھ تھاکہنے لگا احسان بھائی !ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بھوکوں ننگوں پر پیٹ بھرے نوابوں خرمستوں کی حکومت ہے ، جو لائف اسٹائل ہماری اشرافیہ کا ہے اس کا یہاں جرمنی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارے حکمرانوں کی جائیدادیں باہر،کاروبار باہر،بچے باہر،علاج معالجہ باہر،وہ تو پاکستان لوٹنے کھسوٹنے اور اپنی نوابی مزاج کی تسکین کے لئے رہتے ہیں ۔قرضوں کا یاد نہیں لیکن کہیں پڑھ رہا تھا کہ ہمارے بجٹ کے نصف سے زیادہ توسود ہوچکا ہے آپ تو ان سے ملتے ہوں گے،نیوزکانفرنسوں اورکیمروں سے ہٹ کر کبھی کسی کو متفکر دیکھا؟میںچپ رہا ،میرے فون کا ریسور اس کی آواز میری سماعتوں میں پہنچا رہا تھاکہنے لگا ’’احسان بھائی !ہم تیکنیکی طور پر ڈیفالٹ ہوچکے تھے ،یہ تو چین اور سعودیہ ، امارات وغیرہ نے کچھ مدد کی تو بچت ہوگئی اوراب آئی ایم ایف کی منتیں کرنے کے بعد کہیں جاکر تین ارب ڈالر کی بھیک ملی ہے۔ بات چھوٹی سی ہے لیکن بہت اہمیت رکھتی ہے ،مجھے بتائیں ان حالات میں صاحبان اقتدار کی تنخواہوں میں دو دولاکھ روپے اضافے کا کیاجواز؟ ۔ہم پر یہ کیسے لوگ مسلط ہیں ملک کا خزانہ خالی برتن کی طرح بج رہا ہے اور چیئرمین سینیٹ کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ مستحق کوئی نہیں۔مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد وی آئی پی سکیورٹی چاہئے۔جہازوں میں سفر کی اجازت دی جائے، بارہ ملازم رکھنے کا اختیار ہو،ڈھائی لاکھ روپے گھر کا کرایہ دیا جائے۔ یہ ایسا کیسے سوچ لیتے ہیں ، لوگ بھوک سے خودکشیاں کرر ہے ہیں اور انہیں دیکھو،یہاں جرمنی میں کوئی سیاست دان ایسا کہے تو یہ لوگ اسے نفسیاتی اسپتال پہنچاکرڈاکٹروں کا بورڈ بٹھا دیں، حالاںکہ ان کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے ،اس کے زرمبادلہ کے ذخائر316.46بلین امریکی ڈالراور فی کس آمدنی 51383ڈالر ہے، اس کے باوجود ان کا لائف اسٹائل اتناسادہ ہے کہ آپ حیران ہوجاؤ گے۔میں یہاں رائن شہر کے ایک دفتر میں ملازم تھا ،میرے باس ایک سیاست دان او ر پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھوربن ونٹر تھے ، ڈاکٹر صاحب مائیگریشن ، ایجوکیشن ،کلچراو رآرکائیو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈتھے اورآپ یقین کرو گے ڈاکٹر صاحب سائیکل پر دفتر آتے تھے۔ سائیکل پارکنگ میں کھڑی کرتے ،کچھ دیروہیںکھڑے ہو کر اپنی سانسیں درست کرتے اور کاندھے سے بیگ لٹکا کر دفتر آجاتے خود اٹھ کر کافی بناتے اور اکثر اسٹاف کے لئے بھی کافی بنا کر لے آتے ۔میں نے بھی ان کی ہاتھ کی کافیاں پی رکھی ہیں۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی وزیریا بیوروکریٹ اپنے ماتحت کے لئے کافی بنائے اور اس کی میز پر رکھے ؟ میں پھر چپ رہامیرے پاس حبیب کی کسی بات کا جواب نہیں تھااسکاایک ایک لفظ سچ پرمبنی تھا مجھے جرمنی کی وزیر اینی اسپیگل یاد ہے۔2006میں علاقائی سیاست سے کیرئیر کا آغاز کرنے والی اینی2021میں وفاقی کابینہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اسے فیملی افیئر کا قلمدان دیا گیا،اینی کا مستقبل تابناک تھا، اس نے بہت آگے جانا تھا لیکن نہ جاسکی اسے نمناک آنکھوں کے ساتھ مستعفیٰ ہونا پڑا،وہ وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے پہلے اپنی ریاست میں ماحولیات کی وزیر تھی، انہی دنوں سیلاب آیااینی سے جو ہوسکتا تھا اس نے دن رات کیا اور سیلاب ختم ہونے کے دس دن بعد چار ہفتوں کی چھٹی پر فرانس چلی گئی ،کسی صحافی نے خبر لگادی کہ یہ فیملی افیئر کی وزیر صاحبہ وہی ہیں جو سیلاب کے دس دن بعد جرمنی کو سوگوار چھوڑ کر سیر سپاٹے پرنکل گئی تھیں ۔ اینی سے سوالات ہونے لگے ،تنقید ہونے لگی جس پر اینی نے معافی مانگتے ہوئے استعفے دے دیا۔ہاں یہ ضرور کہا کہ کورونا کی پابندیوں کی وجہ سے بچے چڑچرے ہوگئے تھے۔ فالج کے بعد شوہربھی تناؤ کا شکار تھے۔ آجکل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم اسٹیٹ بنک پر برہم ہیںکہ اس نے گذشتہ حکومت میں چھ سو بیس افراد کوتین ارب روپے کابلا سود قرض کیسے دیا وہ ان’’ خوش نصیب ‘‘قرض داروں کے نام مانگ رہے ہیں اور اسٹیٹ بنک آئیں بائیں شائیں کررہا ہے ،یادش بخیر جرمنی ہی کے صدرکرسٹائن ووف کو اس بات پر استعفے دینا پڑا تھا کہ انہوں نے ایک صنعت کار کی بیوی سے کم شرح سود پر پانچ لاکھ یورو کا قرض لیا اور جب اسکینڈل سامنے آیا تو مکر گئے۔ ان کے اس یوٹرن نے ان کی سیاست پر فل اسٹاپ لگادیاانہیںاستعفیٰ دینا پڑاتھالیکن اپنے گورنر اسٹیٹ بنک صاحب گھبرائیں نہیں وہ پاکستان میں ہیں جرمنی میں ہوتے تواب تک لگ پتہ جاتا۔جرمنی والے تو شرمندگی سے خودکشیاں بھی کرلیتے ہیں اور کرنے پر مجبور بھی کردیتے ہیں لیکن دو دو ٹن کے ائیرکنڈیشنوںمیں ہماری پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوتی ۔اس لئے کچھ پونچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں، پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چئیرمین لاکھ سٹپٹائیں کچھ نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ پاکستان ہے !