محراب و منبر سوسائٹی کا نیوکلس اور مرکز و محور ہیں ۔امتداد زمانہ کے سبب اس کا اثر و نفوذ قدرے متاثر ہوا، تاہم اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ اور معتبر ہے ۔ گزشتہ دنوں ہاروڈ یونیورسٹی اور لمز یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا ایسا ہی ایک پراجیکٹ ، اوقاف کے اشتراک سے روبہ عمل ہوا ، جس کا بنیادی مقصد سماج پر خطباتِ جمعہ کے مثبت اثرات کا جائزہ تھا ۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایک سوسائٹی یا محلے کی مرکزی مسجد کے خطیب صاحب کو سوشل ایشوزمیںسے کسی ایک موضوع ،جیسے جائیداد میںعورت کی وراثت کا حق،پڑوسیوں کے حقوق ،صلہ رحمی، امانت اور دیانت وغیرہ پرخطبہ جمعہ میں گفتگو کی دعوت دی جاتی ، جس کے لیے متعلقہ علمی مواد بھی فراہم کیا جاتا ، ازاں بعد یہ سٹوڈنٹس، جن میں طلبہ و طالبات دونوں شامل ہوتے ، مسجد کے اردگرد ، محلے کے مختلف گھروں میں جاتے اور اہلِ خانہ سے خطبہ جمعہ اور خطیب صاحب کی گفتگو کے حوالے سے ایک پر فارماکے ذریعے فیڈ بیک اور تاثرات حاصل کرتے ۔ نصف صدی قبل ، اوقاف پنجاب علماء اکیڈمی بھی اسی تصوّر کے تحت تشکیل دی گئی تھی ،جس کا بنیادی مقصد مسجد کو مرکزِ ملت اور امام وخطیب کو رہنمائے قوم بنانے کے لیے آئمہ اور خطبا میں اسلامی علوم کی مہارت پیدا کرنا اور انہیں جدید معاشرتی و سائنسی علوم سے متعارف کراناتھا تاکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ، ملک و قوم کی بہتر رہنمائی کرسکیں اور معاشرے کو اسلامی ، روحانی اور اخلاقی اقدار پر تشکیل دینے میں صحیح طور پر مدد گار ثابت ہوسکیں ۔نیز تقابل ادیان ، تقابل قوانین اور تقابل نظریات کا اہتمام کرنا ، تاکہ آئمہ و خطباء اس تقابل میں اسلام کی حقانیت ، عظمت اور فوقیت ، علمی اور تحقیقی طور پر ثابت کرسکیں۔مزید یہ کہ مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب نیز یورپی اقوام کی ترقی کے عوامل اور ان کے مسلمانوں کی معاشرت ، معیشت ، سیاست ، تعلیم، تہذیب ، قانون اور عدالت پر اثرات کا مطالعہ اور تجزیہ ۔ مغربی مفکرین کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں آراء اور مأ خذ اسلامیہ کی روشنی میں ان کا تجزیہ ، نیز یورپ، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ضرورت واہمیت کا جائزہ ۔ دورحاضر میں عالم اسلام کی علمی و فکری اور سیاسی تاریخ ، مسلم ممالک کے اتحاد و اختلاف کا علمی تجزیہ اور مساعی ، اتحاد عالم اسلامی کا مطالعہ ۔ پاکستان کا تاریخی پس منظر ، پیش آمدہ معاشرتی ، تہذیبی ، تعلیمی ، عدالتی ، قانونی، اقتصادی اور سیاسی مسائل اور ان کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی و تحقیقی مطالعہ ۔ پاکستان میں مذہبی ، علاقائی اور لسانی اختلافات کا تاریخی پس منظر اور ان کے نقصانات ، اتحاد و اتفاق کے برکات وفوائد ، معاشرتی ثقافتی اور ادبی وسعت و تنوع کی تحسین اور کثرت میں وحدت کی وضاحت۔ تصنیف و تحقیق کی تربیت کا اہتمام کرنا تاکہ آئمہ و خطباء و عظ و خطبہ کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے ذریعے لٹریچر کے اس دور میں دین اسلام کی زیادہ موثر انداز میں خدمت کرسکیں۔ چند ہی سالوں میں یہ ایک مستند اور معتبر ادارہ بن گیا ، پھر وہی ہوا، جو بالعموم ایسے اداروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کے زیر سایہ کسی علمی اداروں کی گروتھ ذرا مشکل سے ہوتی ہے ، چنانچہ یہ ادارہ ایسے ہی ایک حادثے کی نذر ہوگیا ، تاہم خطے کی سب سے بڑی "Mosque Establishment"ازحد توانا انداز میں ، آج بھی اوقاف پنجاب کے زیر انتظام مستعد اور بھائی چارے و انسان دوستی کے جذبوں کی بہم رسانی کا اہتمام کیے ہوئے ہے ، بہر حال --- گزشتہ روز صدرِ پاکستان نے بھی انہیں خطوط پر سوچ و بچار کے لیے ایوانِ صدر میں ایک اجلاس کا اہتمام کر رکھا تھا ۔جس کے شرکاء میں انیق احمد وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی،پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ، مسٹر وسیم اجمل ایڈیشنل سیکرٹری (انچارج)ایف ای پی ٹی ، افتخار علی شلوانی سیکرٹری این ایچ ایس آر سی ، کیپٹن(ر)انوارالحق چیف کمشنر اسلام آباد ، سیّد اظفر علی ناصر وزیر اوقاف و مذہبی امور پنجاب ، محمد عمر سومرو وزیر اوقاف و مذہبی امور ، زکوۃ اینڈ عشر سندھ ، ڈاکٹر طاہررضابخاری سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور پنجاب ،منور علی سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور ،زکوۃ اینڈ عشر سندھ ،ڈاکٹر اسد علی خان سیکرٹری اوقاف ومذہبی امور خیبر پختونخوا،نوید الرحمن سیکرٹری اوقاف و مذہبی اموربلوچستان ،سردار ظفر علی خان سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور آزاد جموں و کشمیر ، محی الدین احمد وانی چیف سیکرٹری گلگت ۔بلوچستان و دیگراپنے نمائندگان کے ذریعے شامل تھے ۔اس اجلاس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ صوبوں کے پاس مدارس اور مساجد میں سے رجسٹرڈ کتنے ہیں اور نان رجسٹرڈ کتنے ۔ اس ڈیٹا کے حصول کا بنیادی مقصد تو لامحالہ یہی ہے کہ مساجد کی صحیح تعداد کا تعین ہوسکے اور ایک ایسا ڈیٹابیس دستیاب ہونا چاہیے ، تاکہ جب کسی اہم دینی یا سماجی موضوع پر کمیونیکیشن در کار ہو تو، ایک واٹس ا یپ میسج کے ذریعہ ان تمام حضرات سے رابطہ ممکن ہوسکے،آج کل مدارس و مساجد کے ڈیٹا کا حصول بھی ایک مشکل امر ہے ۔ متعلقہ ادارے اور تنظیمات تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ شاید اس کے پیچھے کوئی ایسی پالیسی یا ایجنڈا تو پوشیدہ نہیں، جس کا مقصد کسی "اسٹیٹ کنٹرولڈ پالیسی" کا اطلاق و احیاء ہے ۔ توواضح رہنا چاہیے کہ اس سارے عمل کے پیچھے اس نوعیت کا کوئی جذبہ کار فرما نہیں ۔ بلکہ اصل محرک یہ ہے کہ ملک میں ایک لاکھ کے قریب ان مساجد میں تعلیمی ، تدریسی اور اخلاقی سطح پر ایسے اہتمامات ممکن ہوسکیں ،جس کے تحت وہ بچے جو اسکول جانے سے محروم ہیں ، زیور علم سے آراستہ ہوں ، جن کی تعداد دو کروڑ اَسّی لاکھ ہے ۔ ان پونے کروڑ بچوں کی تعلیم کے اہتمام کے لیے تقریبا پچپن ہزار اسکول درکار ہیں اور یقینا اس نوعیت کے اہتمام کے لیے جو وسائل درکار ہیں ، سرِدست وہ ہمارے پاس نہیں ۔ سوسائٹی اور آباد ی کا 24 فیصد حصہ "مینٹل سٹریس "میں ہے، ان کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے ۔ پولیو ، ڈینگی ، کوویڈاور منشیات سمیت حفظانِ صحت کے کتنے ہی شعبہ جات ہیں ، جن کی تبلیغ و تدریس کے لیے صاحبان محراب و منبر کے موثر کردار سے سوسائٹی آسودہ ہوسکتی ہے ۔ مساجد کا وسیع انفراسٹرکچر اور موثر انسٹیٹیوشن انڈر یوٹیلائزڈ ہے ۔ خطبہ جمعہ اور روزمرہ معمولات میں صَرف ہونے والے وقت کی "Calculation" کریں تو مسجد کے ، اس وسیع ادارے کے استعمال کا دورانیہ دن میں زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے سے زائد نہیں بنتا ۔ اس کی علمی اور سماجی افادیت بتدریج کم ہورہی ہے ، اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔بہر حال مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق پنجاب میں اس وقت تریسٹھ ہزار ، چار سو ، ستاسی مساجد ہیں ، جن میں پندرہ ہزار ، نوسو چھ انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پاس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ۔ رجسٹریشن کا ایک عمل محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی بھی موجود ہے ، جس کے تحت تیرہ سو چالیس مساجد ان کے ہاں رجسٹرڈ ہیں ۔ جبکہ سنتالیس ہزار ، چار سو، اکیاون نان رجسٹرڈ ہیں ۔ اوقاف کے پاس رجسٹریشن وقف پراپرٹی آرڈنینس کی شق6 کے تحت بطور " وقف پراپرٹی"عمل پذیر ہوتی ہے ۔ اس شق کے تحت ، ہر وہ مسجد ، مدرسہ اور مزار جو بنیادی طور پر "وقف" ہے یا اس کا استعمال " وقف" جیسا ہے، کا اوقاف کے پاس رجسٹر ڈ ہونا لازم ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں اندسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پاس ٹوٹل رجسٹر مدارس کی تعداد پندرہ ہزار ، سات سو، باون(15752) ہے ، جبکہ دو مدرسے اوقاف کے پاس رجسٹر ڈ ہیں ۔ مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق پنجاب میں مدارس کی کل تعداد سولہ ہزار ، چھ سو، پانچ ہے۔ جبکہ مدرسہ بورڈز کے پاس الحاق شدہ مدارس کی تعداد ستا ئیس ہزار ، سات سو، چوہتر ہے ۔