بیسویں صدی کا ممتاز شاعر لکھاری، موسیقار رابندر ناتھ ٹیگور سات اگست 1941کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔قدرت نے ٹیگور کو حس جما لیات کی سنہری مٹی سے گوندھ کر بنایا اور اس کے وجود میں فن کے کئی جہان آباد کیے۔ وہ صرف ایک شاعر ہی نہ تھا بلکہ ڈرامہ نگار تھا، وہ ایک مصور تھا, تھیٹر کا اداکار بھی تھا، وہ ایک ناول نگار تھا اور ایک موسیقار بھی ۔ سینکڑوں کہانیاں، ناول، ڈرامے اور سینکڑوں نظمیں لکھنے کے ساتھ ٹیگور نے ہزاروں گیتوں کی دھنیں بنائیں۔ٹیگور اپنی زندگی میں انتہائی متحرک رہا۔ وہ زندگی کو سائنسی انداز میں سوچنے اور پرکھنے کا قائل تھا. وقت کے ایک ایک لمحے کو استعمال میں لانے والے ٹیگور نے انتہائی منظم زندگی گزاری وہ صبح دم اٹھتا اور عبادت کے بعد ترتیب وار اپنے کاموں کو سرانجام دیتا ۔رات گئے تک متنوع قسم کے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔ ٹیگور نے 80 سال کی زندگی میں 10 برس انتہائی بیماری کی حالت میں گزارے مگر اس کے باوجود اس نے اپنی زندگی میں اتنا کام کیا کہ حیرت ہوتی ہے کہ ٹیگور محض ایک فرد تھا یا دس افراد کا مجموعہ! ٹیگور کی شخصیت کے بارے میں جتنا جانتے جائیں،آپ حیرت میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف اسے فنون لطیفہ سے دلچسپی ہے تو دوسری طرف وہ سائنسی مضامین میں بھی غیر معمولی دلچسپی رکھتا تھا۔طبیعیات ،حیاتیات ،کیمیا ،آسٹرولوجی اور فلسفے کے متعلق جاننا اور کتابیں پڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔اس کے شوق کا دریا بس یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتا۔اس کی ذاتی لائبریری میں کاشتکاری، لسانیات، تاریخ، حشریات کے موضوع پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں. وہ ان کا مطالعہ صرف وقت گزاری کے لیے نہیں کرتا تھا بلکہ وہ ان علوم کو جاننا چاہتا تھا. گیتا نجلی کے دیباچے میں ٹیگور کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں دلچسپ حقائق موجود ہیں اور انہیں پڑھ کر ہم جان سکتے ہیں کہ اپنے وقت کا یہ نابغہ روزگار کس طرح زندگی سے جڑے چھوٹے چھوٹے اور معمولی سے معمولی ہنر کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی لائبریری میں نقاشی، برتن سازی، ریشم کے کیڑوں کی پرورش کے بارے میں بھی کتابیں موجود تھیں۔ایک مغربی زرعی سائنسدان کے ساتھ مل کر اس نے دیہی تعمیر نو کا ادارہ بھی اپنے گاؤں میں بنایا اور یوں غریب دیہاتیوں کی زندگی بدلنے کے لیے عملی جدو جہد کی۔ ٹیگور نے جاپان، امریکہ، جرمنی اور ایران سمیت کئی ملکوں کے سفر کیے۔ وہاں کی نامور یونیورسٹیوں میں فنون لطیفہ کی مختلف اصناف پر لیکچر دیے کیونکہ ٹیگور صرف شاعر ہی نہیں تھا اس کو فنون لطیفہ کی کئی شاخوں میں دلچسپی تھی۔ وہ دنیا بھر میں سفر کرتا اور اس طرح کے متنوع موضوعات پر کتابیں جمع کرتا تھا۔ ٹیگور پر کام کرنے والے ایک نقاد نے لکھا کہ ٹیگور اگر ایک عظیم المرتبت شاعر کی حیثیت سے عالم میں روشناس نہ بھی ہوتا تو بھی وہ اپنے وسیع مطالعے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہوتا۔شاید ٹیگور ملٹن کی اس فلاسفی پر یقین رکھتا تھا کہ ایک شاعر کو تمام علوم میں مہارت ہونی چاہیے۔ 1912 میں ٹیگور کو نوبل انعام ملا اور 1915 میں برطانیہ کی حکومت نے ٹیگور کو نائٹ ہڈ کا اعزازی لقب دیا جو شاعر نے جلیانوالہ باغ کے سانحے پر احتجاج کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو واپس کر دیا۔ ٹیگور کی زندگی شاعر کے اس کلاسیک تصور سے کس قدر مختلف تھی جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہیکہ شاعر خیالات کے گھوڑے دوڑانے کے ماہر ہوتے ہیں اور عملی طور پر وہ زندگی کے اصل دھارے سے الگ بیٹھے اپنے خیالات کے سمندر میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ غالب کے اس مصرے پر ہی ایمان لے آئے ہیں کہ، آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ شاعر اور لکھاری کو وقت کے ساتھ بہنے کے لیے جدید علوم سے واقفیت ضروری ہے ۔ پھر خیالات کی فطری رو کو نکھارنے اور پر اثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر زندگی کے بدلتے دھارے سے جڑا رہے۔ اس کی جدید سائنس میں غیر معمولی دلچسپی بھی حیران کرتی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگائیے کہ 1930 میں ٹیگور اپنی بیماری کے باوجود طویل سفر کر کے جرمنی پہنچتا ہے اور 14 جولائی 1930 کو برلن کے مضافات میں واقع عظیم سائنسدان آئن سٹائن سے ملنے اس کے گھر جاتا ہے۔ اپنے وقت کے دو شاہ دماغوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ ہر لحاظ سے یادگار اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مکالمے کا موضوع ایک طرف فنون لطیفہ ہے تو دوسری طرف سائنس اور روحانیت ہے۔ سات اگست 2023 کوٹیگور کی 82ویں برسی منائی گئی اور اس عظیم تخلیق کار کی زندگی سے ہم سب لوگ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ زندگی کو منظم انداز میں گزار کر ہی اس کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹیگور فنون لطیفہ سے جڑے ہوئے لوگوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جتنا بڑا فنکار ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ منظم ہوگا وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے خوبصورتی اور سچائی کشید کرے گا۔ ٹیگور نے عملی طور پر ایک زندگی میں دس افراد کا کام کرکے یہ اپنے آپ کو غیر معمولی فنکار ثابت کیا۔ بلا شبہ وہ دنیا ئے ادب کا ایک حیرت انگیز کردار ہے سات کے ہندسے کو ٹیگور کی زندگی میں اہمیت رہی وہ سات مئی 1861 کو کلکتہ میں پیدا ہوا اور سات اگست 1941 کو عدم کے سفر پر روانہ ہوا۔ موت سے قبل اس نے اپنی آ خری نظم میں لکھا کہ میں اپنے پیاروں کے لمس کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ آج میرا تھیلا خالی ہو چکا ہے ، جو کچھ میرے پاس تھا میں اس دنیا کو دے چکا ہوں اور اس کے جواب میں ،میں تھوڑی سی محبت اور تھوڑی سی معافی کا طلبگار ہوں. میں یہ تحفے لے کر اس کشتی میں سوار ہو جاؤں گا جو مجھے اس دنیا کے میلے سے دور لے جائے گی۔