عمران اسلم کی شخصیت کتنی ہمہ گیر تھی۔وہ کن کن خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔محض ایک مختصر تی تحریر اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ ایک صحافی کی کوئی انفرادیت ہو نہ ہو لیکن اسے یہ شعبہ اپنے اردگرد بہت سے باکمال اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیات سے ملنے کا موقع ضرور فراہم کرتا ہے۔ عمران اسلم سے ملاقاتیں بھی میری زندگی کا انوکھا اور اچھوتا تجربہ رہا۔ان کی کسی بھی شعبے میں تحریری کاوش دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان کے قلم نے الفاظ کو کہنے اور بولنے کا سلیقہ سکھایا ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں آنکھیں بھی دے رکھی تھیں اور دماغ بھی۔یہ ایک ایسے انسان کا اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے جو ہم جیسے کتنے طفل مکتب لوگوں کے استاد‘ محسن اور بڑے تھے۔اسی لئے یہ شاید میری زندگی کی انتہائی قیمتی خواہشوں میں سے ایک خواہش تھی کہ میری کسی کتاب کا دیباچہ جناب عمران اسلم لکھیں کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری کسی ٹوٹی پھوٹی کاوش میں اگر عمران اسلم کے قلم کی حرارت شامل ہو گئی تو کتاب کی عزت و توقیر اور اس کا اعتبار بڑھ جائے گا۔اس لئے میں نے پاکستان کی آزادی کے بعد 25سال کی جو کہانی جنرل اعظم کی زبانی لکھی ان کی ان یادداشتوں کو میں نے جناب مجید نظامی مرحوم کی ہدایت پر تحریر کیا تھا۔اس لئے میں جنرل اعظم سے درخواست کی کہ وہ خود عمران اسلم صاحب سے اس کتاب کا دیباچہ لکھوائیں کیونکہ میں ابتدا ہی سے جناب عمران اسلم کا بڑا مداح تھا۔جنرل اعظم کی شہرت کی کئی وجوہات تھیں۔وہ ایوب خان کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے۔27اکتوبر 1958ء کو وہی تھے جنہوں نے کراچی کے قصر صدارت میں صدر اسکندر مرزا سے ان کے استعفے پر دستخط کرائے تھے اور پھر اس کے چند سال بعد وہ ایوب خاں کی آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے سب سے وفادار ساتھی بن گئے تھے ان کی یہ بھی خوبی اور شہرت تھی کہ وہ مشرقی پاکستان میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ جب انہیں واپس مغربی پاکستان بلایا گیا تو ڈھاکہ ایئر پورٹ پر عوام کی بہت بڑی تعداد نے ان کے اس طیارے کو گھیر لیا تھا جس میں وہ واپس مغربی پاکستان روانہ ہونے والے تھے۔قصہ یہ کہ جنرل اعظم کی اس کتاب کا دیباچہ عمران اسلم نے لکھا تھا۔عمران اسلم سے میری پہلی ملاقات مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں ہوئی تھی۔دراز قد‘ خوش گفتار اور باغ و بہار شخصیت کے مالک عمران اسلم گفتگو کا ہر فقرہ ترنگ اور دعا کے مانند تھا۔اس پہلی اور مختصر ملاقات میں اپنی کسی بات کو استدلال سے ثابت کرنے کے لئے انگریزی اور اردو میں چند ایسے جملے کہے جن پر سچ مچ دونوں زبانیں خود فریفتہ ہو جائیں۔ اس کے بعد میں نے ان سے دوبارہ انٹرویو کیا۔گیتی فرشتے چونکہ ایک وقت میں ہمارے ساتھ اسپورٹس کی کوریج میں بڑی سرگرم تھیں بعد میں وہ عمران اسلم کی رفیق سفر بنیں، اس طرح عمران اسلم کے متعلق ان سے بہت سے معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ ایک انسان اپنے مختلف کینوس پر خود کیسے منواتا ہے۔ عمران اسلم ایک لیجنڈ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ذرائع ابلاغ کے کیا تقاضے ہیں۔اس میں متنوع آئیڈیاز کو کب اور کیسے سامعین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔عام لوگ کیا دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔ان کے رجحانات اور میلانات کیا ہیں۔پاپولر موضوعات کیا ہیں۔ حالات اور پیش آنے والے واقعات کے کیا ٹرینڈ ہیں ،عمران اسلم کا تعارف محض یہ نہیں کہ وہ ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے سربراہ تھے۔عمران اسلم کی وفات سے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ انگلش اور اردو ڈرامہ نگاری کا ایک درخشندہ ستارہ نہیں رہا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ عمران اسلم ایک باکمال شخصیت‘ لاجواب انسان، اچھوتی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک کامیاب ڈرامہ نگار‘ مثالی ایڈیٹر ‘ غیر معمولی قلمکار‘ بہترین منتظم ‘ حیران کن صداکار‘ منفرد ڈائریکٹر تھے۔ایک ساتھ اردو اور انگریزی زبانوں پر ایسا عبور کہ جو انہیں پڑھتا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔وہ لکھنے میں ٹرینڈ سیٹر تھے ،بہترین اسکریننگ اور کاپی رائٹنگ میں ان کا جواب نہیں۔ان کی آواز اشتہارات اور پروموز کی جان ہوتی تھی۔ٹی وی کارٹون میں ان کے آئیڈیاز کے کیا کہنے۔ایک ایسا شخص جس کے پاس صلاحیتوں کے اتنے رنگ ہوں نہ جانے کتنے جادوئی آئیڈیاز ان کی ذہن کی پیداوار تھے۔جو ہم سب کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہیں انہیں کہاں ایک مضمون میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ان کے اس آئیڈیاز کے پیچھے ایک سبق ہوتا تھا۔علم کی زرخیزی نظر آتی تھی۔اخبارات میں انہوں نے نئی ٹرینڈز پیدا کئے، ان میں جدت بھی تھی اور معلومات کا خزانہ بھی اسی طرح انہوں نے ٹی وی اور ڈرامے کو ایک نیا اسلوب دیا۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک انتہائی منکسرالمزاج اور ڈیسنٹ انسان تھے اور اس سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے اردگرد ہر اس شخص کو سکھانا چاہتے تھے جو بھی سیکھنا چاہتا تھا۔ایسا باکمال شخص اب ہم میں نہیں رہا۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ شاندار انسان کو اپنے و کرم کا معاملہ فرمائے(آمین) جسٹس (ر) شفیع محمدی اس دنیا سے چلے گئے وہاں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔لیکن سچ پوچھیں تو ایسی بھر پور اور محبت بکھرتی زندگی گزار گئے کہ جو کوئی انہیں جانتا تھا گواہی دے گا کہ وہ بحیثیت انسان بڑے سچے اور کھرے تھے۔قلندرانہ طبیعت پائی تھی دیہی خاندانی پس منظر تھا اس لئے سادگی اور رواداری ان کی طبیعت اور فطرت کا حصہ تھی۔ایک منصف کی حیثیت سے ضابطے اور قانون ان کے رہنما تھے۔ہر قسم کے پروٹوکول سے آزاد تھے۔اس لئے ایک بڑا حلقہ ارادت ہمیشہ ان کا متعرف رہا۔لیکن اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں نہ کبھی ڈگمگائے نہ کبھی بھٹکے۔عام زندگی میں جتنے اپ رائٹ تھے۔منصف کی کرسی کی آبرو اور حرمت اتنی ہی عزیز رکھی۔بڑے انسان تھے اس لئے کبھی کسی کو چھوٹا نہیں سمجھا۔ایک وقت میں ہم طارق روڈ کے عقب میں اور شفیع بھائی خالد بن ولید روڈ کے متصل ایک عمارت کی بالائی منزل پر رہا کرتے تھے۔تو ان سے گاہے بہ گاہے ملاقات رہتی تھی ان کی ایک عادت محترم حاجی حنیف طیب سے بڑی ملتی جلتی تھی۔جب بھی کوئی ضرورتمند کسی کام سے ان کے پاس آتا جس حال میں ہوتے اس کی سواری پر بیٹھ کر چل پڑتے خواہ وہ موٹر سائیکل ہی کیوں نہ ہوتی۔تکبر یا خودنمائی قریب بھی نہیں بھٹکی تھی۔اتنی خوبیوں کے مالک کہ اگر یادیں اور باتیں سمیٹنے لگوں تو درجنوں صفحات لکھنے پڑں گے۔ایسی قلندرانہ طبیعت اور تجربہ گاہ ہے بس کوشش کرنی چاہیے کہ اوپر والے کے سامنے حاضری ہو تو شرمندگی کا پسینہ ماتھے پر نہ ہو۔مجھے یقین ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں ضرور سرخرو ہوں گے۔ اداکار اسماعیل تارا بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے مایوسی اور ناامیدی میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا یہ ستارہ بجھ گیا۔جو زندگی بھر لوگوں کے لئے ظرافت اور طنزو مزاح کی پھلجڑیاں بکھیرتا رہا۔وہ دنیا سے روٹھ گیا۔اسماعیل تارا کا کیریئر کئی دھائیوں پر محیط ہے وہ ہر فن مولا قسم کا کامیڈین تھے۔(جاری ہے)