تین اداروں نے تو باقاعدہ معذرت کر لی، جو معذرت نہیں کر سکتے حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔الیکشن کمیشن کو الیکشن کرانے کے لیے ریٹرننگ آفیسرز اور دیگر عملے کی ضرورت ہے، جو ہمیشہ اسے پاکستان کے دیگر اداروں سے مل جاتے ہیں،اس بار نہیں مل پا رہے،اس بار سبھی ادارے مصروف ہیں یا معاونت کرنے سے قاصر،یا شاید عدم تعاون پر آمادہ۔ لاہور ہائیکورٹ سے ماتحت عدلیہ کے عملے کی خدمات طلب کی گئیں تھیں تاکہ پولنگ ڈے پر انہیں استعمال کیا جائے۔لاہور ہائیکورٹ کے مگر رجسٹرار نے لکھ بھیجا ہے کہ یہ ممکن نہیں۔کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سوا تیرہ لاکھ کیسز التوا کا شکار ہیں،اگر عملہ الیکشن پہ لگا دیا تو ان کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاعدلیہ کو اس صورتحال کا سامنا پہلی بار کرنا پڑ رہا ہے؟ ماضی میں جب انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالتی افسران فراہم کیے گئے ہوں گے تو تب کوئی کیسز زیر التوا نہیں تھے،کیا آج پہلی بار ایسا ہوا ہے؟وزارت دفاع سے سیکیورٹی میں معاونت طلب کی گئی ، جواب آیا فوج،رینجرز اور ایف سی اہلکار سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ڈیوٹیز پر مامور ہیں،انتخابات کیلئے ان کی تعیناتی ممکن نہیں ۔ واضح رہے کہ پچھلے کئی انتخابات میں فوج کے جوان پولنگ اسٹیشنز پہ اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے ہیں۔پاکستان میں سکیورٹی حالات کبھی بھی بہت زیادہ آئیڈیل نہیں رہے۔ 2008 اور 2013 کے انتخابات کے وقت بھی پاکستان میں دھماکے ہو رہے تھے، حالات بہت کشیدہ تھے مگر سیکیورٹی فورسز کی معاونت مل ہی جاتی تھی۔ اس بار تو صاف جواب دے دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئی جی خیبرپختونخواہ سے کہا کہ وہی اپنے جوان انتخابات کی سیکیورٹی پہ لگا دیں ۔آئی جی نے بتایا کہ ان کے پاس توپہلے ہی ستاون ہزار پولیس اہلکاروں کی کمی ہے وہ نفری کیسے دے سکتے ہیں ۔ پنجاب سے نفری مانگی تو آئی جی پنجاب نے بھی لاکھوں اہلکاروں کی کمی کا دکھڑا سنا دیا۔ مزید یہ بھی کہا کہ رمضان میں تو ہر گز ممکن نہیں ہمارے جوان تو اُن دنوں مساجد کی سیکیورٹی پہ مامور ہوں گے۔ گویا اب انتخابات کے لیے سیکیورٹی کا انتظام بھی الیکشن کمیشن نے خود ہی کرنا ہے۔ اس سلسلے میںاب شایداسے چین، بھارت ،ایران یا دوسرے ہمسایہ ملک سے ایک دن کے لیے سیکیورٹی اہلکار امپورٹ کرنے کا منصوبہ بنانا ہو گا۔یا پھر جرمنی ، فرانس، آسٹریلیا یا ملیشیا جیسے ملکوں سے درخواست کرنی ہو گی کہ جیسے وہ زلزلے اور سیلاب میں پاکستان کی مدد کرتے ہیں۔پاکستان میں انتخابات کے لیے مالی معاونت بھی شاید اقوام متحدہ، یورپی یونین، ورلڈ بینک یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو کرنی ہو گی کیونکہ وزارت خزانہ نے تو الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے معذرت کر لی ہے۔کہا گیا ہے پیسے نہیں ہیں آپ کو کہاں سے دیں ۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بیوروکریسی کی طرف التجائی نظروں سے دیکھا۔ چیف سیکرٹری نے مگر صاف صاف کہہ دیاہمارے افسران رمضان میں پرائس کنڑول کا کام کر رہے ہوں گے۔ اگر انتخابات کی ذمہ داری انہیں دے دی گئی تو رمضان میں مہنگائی بڑھ جائے گی۔ لہذا چیف سیکرٹری نے بھی اپنے افسران دینے سے انکار کر دیا۔ الیکشن کمیشن کا اگلا قدم اب محکمہ تعلیم ہو گا۔سکول کے اساتذہ، کالج کے لیکچررز اور دیگر عملہ ماضی میں ہمیشہ الیکشن کمیشن کا ہاتھ بٹاتا رہا ہے ۔ اس بار مگر مشکل یہ ہے اپریل میں امتحانات ہو رہے ہوں گے اور امتحانات کے دوران محکمہ تعلیم کا عملہ ہر گز انتخابات میں اپنی گردن نہیں پھنسا سکتا ورنہ قوم کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ لہذا قوی امکان یہی ہے کہ آئندہ چند روز میں محکمہ تعلیم بھی باقاعدہ خط لکھ کے انتخابات کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے سے معذرت کر لے گا۔ اور ہاں گندم کی خریداری بھی تو چل رہی ہو گی۔ صوبائی حکومتوں کی ساری انتظامیہ تو گندم خریدنے میں لگی ہو گی۔ ظاہر ہے قوم کے لیے خوراک کا انتظام کرنا انتخابات سے زیادہ اہم ہے۔ یوںگندم خریداری کے باعث بھی ممکن نہیں ہے کہ انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جا سکے۔ مان لیجے کہ اگر پولیومہم، گندم کی کٹائی اور بچوں کے امتحانات کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہونے ہیں تو پھر مستقبل میں ایسی خبروں کی بھی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ ’’پولنگ اسٹیشن نمبر 124 کے ریٹرننگ آفیسر کے گھر کی موٹر خراب ہو جانے کے باعث وہ ڈیوٹی پر نہ پہنچا یوںپولنگ نہ ہوسکی‘‘۔ یا پھر یہ کہ ’’موسم سہانا ہو جانے کے باعث فلاں ریٹرننگ آفیسر کو اس کی بیوی نے چھٹی کرنے پر قائل کر لیا، لہذا اس پولنگ اسٹیشن پہ انتخابات ملتوی کر دیے گئے ہیں‘‘۔ نہ جانے اس ملک میں کیا کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ ماضی میں انہی اداروں سے الیکشن کمیشن کو معاونت مل جایا کرتی تھی۔ اساتذہ بچوں کے امتحانات کے باوجود مارچ اپریل میں ہونے والے انتخابات میں دستیاب ہوتے تھے۔ ماضی میں رمضان میں بھی الیکشن ہو چکے ہیں ، پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہوتی تھیں مگر بیوروکریسی سے افسران پھر بھی مل جایا کرتے تھے۔ پولیس اہلکاروں کی شدید کمی کے باوجود بھی انتخابات ہو جایا کرتے تھے۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال میں پاک فوج کے جوان کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوئے، سرحدوں اور حساس مقامات کو کبھی خالی نہیں چھوڑا گیا مگر انتخابی ضرورت کے لیے رینجرز اور ایف سے کے جوان پھر بھی پولنگ ڈے پر دستیاب ہو ہی جاتے تھے۔ گندم کی کٹائی، سیلاب یا زلزلے کی آفت ، پولیو مہم اور دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ انتخابات بحرحال کسی نہ کسی صورت ہوتے رہے ہیں۔ اس بار مگر ہوا کا مزاج مختلف ہے۔کوئی بھی انتخابات کے انعقاد پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا،سوائے ایک شرپسند گروہ تحریک انصاف کے ۔ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حصول کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اسد عمر کی درخواست پہ جسٹس جواد حسن سماعت کر رہے ہیں ۔ اگرچہ ابھی فیصلہ آنا باقی ہے مگر فیصلہ اگر انتخابات کے آئینی مدت کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد کا بھی آیا تو بھی الیکشن کمیشن اگر تمام اداروں کی رائے اٹھا کے عدالت کے پاس چلا گیا اور کہہ دیا کہ میرے ہاتھ کھڑے ہیں اور مجھے کسی ادارے کی معاونت حاصل نہیں اور یہ کہ ایسے میں الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرا سکتا تو کیا انتخابات نہیں ہوں گے؟