کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ بربادی کے سوا وحشت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔بدزبانی سے سیاستدان اپنی جڑیں کھود رہے ہیں۔ بگٹٹ تاریخ کے کوڑے دان کو روانہ ہیں۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے ’’محبت‘‘ کے آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی اس دن کا صدمہ جی سے جاتا ہی نہیں۔ اقتدار کے بھوکے ایک دوسرے کی کردار کشی کے درپے رہا ہی کرتے ہیں۔ اس دن تو آخری حد سے بھی گزر گئے۔ المیہ یہ کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ جناب روحیل اصغر نے گندی گالیاں بکیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احسن اقبال اور ان کے ایک ساتھی پہ جوتا پھینکا۔پھر ان میں سے بعض نے اس پہ اظہارِ فخر کیا۔پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔سب سے زیادہ شرمناک یہ کہ محترمہ مریم اورنگ زیب کے ساتھ پرلے درجے کی بدتمیزی کا ارتکاب ہوا۔ ایسی بدتمیزی اور بے حیائی کہ الفاظ نہیں ملتے۔ لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا ادراک ہوتا اور احساس کارفرما ہوتا تو دونوں طرف کے لیڈر معافی مانگتے، شرمندہ ہوتے، طرزِ عمل تبدیل کرنے کا ارادہ کرتے۔ کاش کوئی انہیں سمجھا سکے کہ معاشرے کی اخلاقی بنت،social fabrics برباد ہو جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا،کچھ بھی نہیں۔ عبد الولی خان ایک واقعہ سنایا کرتے: گدھے پر سامان لادے ایک بنجارہ نگر نگر گھوم رہا تھا۔ اس ڈھیر پر کسی نے ڈنڈا دے مارا اور پوچھا: کیا دھرا ہے، جانور پر۔ اس نے کہا: دو تین ڈنڈے اور رسید کرو تو کچھ بھی نہیں۔چو ڑیاں پڑی تھیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو بلھے شاہ کے گیت گاتے ہیں۔مسجد ڈھادے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا۔اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں،رب دلاں وچ رہندا۔کہاں وہ وضع داریاں اور کہاں یہ بازاری انداز۔ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو کردار کشی ہماری صحافت اور سیاست کا شیورہ رہا۔ بیس برس ہوتے ہیں، محترم الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی،ضیاء الاسلام انصاری اور رؤف طاہر مرحومین کے ہمراہ کوئٹہ جانا ہوا۔ ایک بزرگ سے جہاز میں ملاقات ہوئی۔ کمال فخر کے ساتھ انہوں نے بتایا: تحریکِ آزادی کے ہنگام دو عدد ہفت روزہ جریدوں کی ڈیکلیریشن وہ رکھتے تھے۔ ایک مسلم لیگ اور دوسرا کانگریس کی حمایت میں وقف تھا۔ پھر انہوں نے بیگم فیروز خان نون کے بارے میں کانگریس نواز جریدے کی دو تین لغو سرخیاں سنائیں۔ حیرت زدہ ہم ان کے تیور دیکھتے رہے۔ شرمندگی نام کی کوئی چیز ان کے پیکر میں نہیں تھی۔یہ وہی خاتون ہیں، گوادر کی واپسی میں جن کا تاریخی کردار تھا۔ اس دن کی بازگشت ذہن میں ابھری تو سرکارؐ کا فرمان بھی یاد آیا: جسے شرم نہیں آتی، وہ اپنی مرضی کرے۔ گویا اللہ اور اس کے سچے رسولؐ سے کوئی تعلق اس کا نہیں۔ روزِ حساب پروردگار ان پہ نگاہ ڈالنا بھی پسند نہ کرے۔ حیوانیت جاگ اٹھے تو آدم کی اولاد درندوں سے بدتر ہو جاتی ہے۔ قسم ہے انجیر کی، زیتون کی، طورِ سینا اور اس شہرِ امن کی بے شک انسا ن کو بہترین تقویم پر ہم نے پیدا کیا پھر اسے بد سے بدتر کی طرف لوٹا دیا، اسفل السافلین سوائے ان کے جو ایمان لائے اور صالح عمل کیے ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے کون ہے جو اس کے بعد بھی دین کو جھٹلائے کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟ اقتدار کی تمنا دیوانگی پیدا کرتی ہے اور مکمل اقتدار کی آرزو وحشت کی انتہا تک لے جاتی ہے۔ کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا۔ آزادی ان معاشروں کو جلد راس نہیں آتی، جو غلامی کے طویل ادوار سے گزرے ہوں۔ تربیت کرنا پڑتی ہے،پیہم سکھانا پڑتا ہے۔ کون مگر سکھائے؟ میڈیا سنسنی بیچتا ہے یا مسخرہ پن۔دھینگا مشتی کے لیے مستقل پلیٹ فارم۔ اکثر علما ء کرام کا محور اب سیاست ہے، فرقہ پرستی مستزاد۔ سیاستدان تو گویا ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے۔ غلبے کی جبلت آدم زاد کو نگل لے تو دانش کا چراغ گل،بھوکا درندہ۔ میں ہوں وحشت میں گم، تیری دنیا میں نہیں رہتا بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا پہلے ہی کیا کمی تھی؟ فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو بروئے کار آئے تو مخالفین کی تحقیر شعار کی۔ جناب عبد القیوم خان،نواب زادہ نصر اللہ خاں، ائیر مارشل اصغر خان، سید ابو الاعلیٰ مودودی، حتیٰ کہ مردِ نجیب ائیر مارشل نور خان کے نا م بگاڑے۔ نور خاں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ قائدِ اعظم کی پیروی کی۔آپ نے کافرِ اعظم قرار دینے والے کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی اور نواب زادہ نصر اللہ خان بھی شائستگی پہ قائم رہے۔ کہا جا سکتاہے کہ کبھی کوئی ادنیٰ لفظ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ ذوالفقار علی بھٹو غیر معمولی ذہانت کے آدمی تھے۔ کارنامے بھی ان کے بہت ہیں مگر خوئے انتقام! دوسرے تو کیا، اپنی ہی پارٹی کے رکنِ اسمبلی ملک سلیمان اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم تک کو نہ بخشا۔ غنڈوں سے انہیں پٹوایا۔ الیکشن کا مرحلہ آیا تو مخالف امیدواروں کو اغوا کر لیا۔ خود ہی نہیں، ان کے چاروں وزراء اعلیٰ بھی بلا مقابلہ ’’منتخب‘‘ہوئے۔ پارٹی کے اختلاف کرنے والوں کو ایک گمنام جگہ، دلائی کیمپ میں قید کیے رکھا۔سیاسی قیدیوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کہ تاریخ نفرین کرے گی۔ احتجاجی تحریک اٹھی تو 329شہری قتل کر ڈالے، حتیٰ کہ خواتین کے مظاہرے پر اسی بازار کی مخلوق چڑھا دی۔ کہانیاں بہت ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ احمد رضا قصوری کے والد کو انہی کے ایما پر قتل کیا گیا۔ انجام اس کے سوا کیا ہوتا جو کہ ہوا۔ شریف برادران نے انہی کو نمونہ کیا۔ بے نظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو اور بعد ازاں عمران خان کی کرداری کشی کے لیے ایسی مہم برپا کی کہ باید و شاید۔ گوئبلز زندہ ہوتے تو شاید ان پہ رشک کرتے۔ شیخ رشید بڑھ چڑھ کر بے نظیر کے باب میں زبان درازی کرتے۔ نواز شریف ان کی پیٹھ ٹھونکا کرتے۔ انہی دنوں کا قرض اب وہ چکا رہے ہیں۔ایک دن کپتان بھی چکائے گا۔ تحریکِ انصاف کے دفاتر پہ چھاپے مارے جاتے، کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا۔ بینر اتا ر دیے جاتے۔ آج وہ دربدر ہیں۔ برطانیہ کے بازاروں میں عافیت سے سفر نہیں کر سکتے۔ ہر کہیں آوازے ان پر کسے جاتے ہیں۔ یہ ہے عمر بھر کی کمائی۔ عمران خان بھی اسی راستے پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے الزامات عائد کیے تو ایک برا سا نام رکھ دیا۔ آئے دن اسے دہراتے رہتے ہیں۔لگتا ہی نہیں کہ وزیرِ اعظم اظہارِ خیال کر رہا ہے۔ دشنام طرازی کے لیے اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی۔ دربار میں پذیرائی اور پشت پناہی۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف فساد برپا ہے۔ اتنی سی بات عالی جناب نہیں سمجھتے کہ ہنگامہ آرائی اپوزیشن کو سازگار ہوتی ہے، سرکار کو نہیں۔ کوئی جائے اور جا کر انہیں بتائے کہ بربادی کے سوا وحشت سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔بدزبانی سے سیاستدان اپنی جڑیں کھود رہے ہیں۔ بگٹٹ تاریخ کے کوڑے دان کو روانہ ہیں۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے ’’محبت‘‘ کے آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی