چند دن دوسرے موضوعات میں پناہ ڈھونڈ کر کر پھر سیاسی حالات کے سرکس اور معاشی حالات کے برزخ کی طرف نگاہ کرتے ہیں ۔ کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے جب بھی اس برزخ اور۔سیاسی سرکس پر لکھنا پڑے دل بوجھل ہوتا ہے۔یوں تو زندگی کا کون سا موضوع ایسا ہے جس پر سیاسی اور معاشی حالات کا سایہ نہیں پڑتا اور وہ ان حالات کے ٹیڑھے پن سے متاثر نہیں ہوتا ۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی حالات کی بے یقینی انسان کی نفسیات تک بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ انسانی تعلقات کا ریشم درہم برہم ہوکے رہ جاتا ہے ہماری بدقسمتی کہ پاکستانیوں کی زندگیوں پر سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سایہ پڑا ہی رہتا ہے ۔سو زندگی سے جڑے ان تمام موضوعات پر میں لکھتی رہتی ہوں ۔لیکن خالصتاً سیاسی سرکس پر لکھنے کو کم جی چاہتا ہے پھر جب ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہوں۔ہمارے یہاں سیاست پر لکھنے کا مطلب بد دیانتی، مفا پرستی پر لکھتے چلے جانا ہے پھر حالات کے سکرپٹ رائٹرز کے طاقتور ایوانوں تک پہنچنے میں ویسے ہی ہمارے جیسے قلم کاروں کے پر جلنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست ایک لاحاصل سرگرمی بن چکی ہے۔ایک ایسا سیاسی تھیٹر جو بس نیوز چینلوں کا پیٹ بھرتا ہے عوام کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات کی سمت درست نہیں ہوتی کیونکہ یہ سیاست فکر انگیز مکالمے کے وجود سے عاری ہے۔اب یہی چلن ہے کہ جو سیاسی جماعت حکومت اور طاقت رکھتی ہے وہ اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کو روندنے اور گرائنڈ کرنے کا کام کرتی ہے۔انصافیوں نے اسی طرح نون لیگیوں کو جیلوں میں ڈالا ان کی تمام لیڈر شپ نے جیلیں کاٹیں اور اب یہی سلوک پی ڈی ایم حکومت تحریک انصاف کے ساتھ کررہی یا کرنا چاہتی ہے تو۔ رونا کیسا۔۔۔یہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں۔ عاقبت نا اندیش سیاستدانوں کو نہ ملک کی پرواہ ہے نہ عوام کا کوئی خیال ہے ،جن پر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ کل لاہور میں جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے تحریک انصاف نے بھی اپنے سیاسی کارکنوں کی بجائے سیاسی جھتے تیار کیے ہیں ، اس ردعمل میں جو ٹکراؤ ہوا اس میں انتہائی افسوسناک واقعہ ہو۔ا پی ٹی آئی کے ایک کارکن علی بلال کی جان چلی گئی جو اس کی لیڈر شپ کے لیے تو مزید سیاست کرنے کا ایک بہانہ ہے لیکن اس کے خاندان کے لئے اس کی جان کا چلے جانا نا قابل تلافی نقصان ہے ۔ یہ کیسی سیاست ہے جس مین صرف اپنی جان کو قیمتی سمجھا جاتا ہے ا اور کارکنوں کو ایک لاحاصل سرگرمی میں الجھایا ہوا ہے۔ انہی کے ایما پر کارکن جھتے کی صورت سڑکوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ دو بدو بھڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔یہ سیاست دانوں کا قصور ہے جو اپنے کارکنوں کو اپنے مفاد کے لیے سیاسی ماحول گرمانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں اور خود چھپ کے بیٹھے ہیں عدالتیں بلاتی ہیں تو نہیں جاتے کہ جان کا خطرہ ہے۔ سیاست اپنی جگہ پر ہو رہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کے حالات بہت مشکل میں ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آٹا بھی شہر میں نایاب ہے، رمضان المبارک کے آنے کی ساتھ ہیں ذخیرہ اندوز اپنی جگہ متحرک ہوچکے ہیں اور وہ چیزوں کے قلت پیدا کررہے ہیں۔ شہباز شریف اٹھتے ہیں اور ایک آدھ انقلابی بیان داغ دیتے ہیں۔شاید وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ان کے بیانات کے ساتھ ہی مسئلے کا حل کے اقدامات شروع ہو جاتے ہیں اور ملک میں اتنا اعلی نظام ہے کہ جونہی وہ ایک بیان جاری کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی متعلقہ محکمے متحرک ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی کہی ہوئی باتیں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف خوش گمانیوں کی جنت سے باہر نکلیں اور لوگوں کے مسائل دیکھیں۔چند روز پہلے بھی ایک بیان آیا تھا جو تمام اخبارات میں ہیڈلائنز کی صورت میں شایع ہوا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ اور وفاقی وزیر اور مشیر کفایت شعاری مہم پر عمل کریں گے تنخواہیں نہیں لیں گے مراعات نہیں لیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوا۔اس ملک کا سفید پوش آدمی سخت مشکل میں گرفتار ہے۔ اس کو صحیح معنوں میں پیٹ بھرنے کے لالے پڑ چکے ہیں سفید پوش فاقہ کشی پر اتر آیا ہے۔ اس کے برعکس ریٹائرڈ ججوں ، بیوروکریٹس کو ریٹائر ہونے کے بعد بھی قومی خزانے سے کروڑوں روپیہ۔ مراعات کی مد میں ادا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کی ستر فیصد سے زائد ابادی شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے تو اشرافیہ کا ملک کے خزانے سے عیاشی کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔وفاقی وزراء کو تنخواہ کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد رقم کرائے کے گھر کی صورت میں دی جاتی ہے اگر وہ اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں تو اتنی ہی رقم ان کو ادا کی جاتی ہے۔ مہینے میں ان کی چار چھٹیاںہیں اگر وہ چھٹی نہیں کرتے تو اس کے کے دولاکھ ادا کیے جاتے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری سمیت پانچ ملازمین کی سہولت میسر ہے اس کے علاوہ مفت پٹرول۔ مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ صرف وزیر اور مشیر وہی کو نہیں بلکہ کئی قسم کے پارلیمانی سیکرٹریوں بھانت بھانت کی کمیٹیوں کے ہیڈز اور اراکین اسمبلیوں کو بھی مراعات کی مد میں لاکھوں کی مراعات دی جاتی ہیں۔ملکی خزانے پر پلتے ہوئے ان طفیلیوں سو فیصد مراعات ختم ہونی چاہیں۔ایک عام پاکستانی ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے ایک موٹر سائیکل رکھنے والا موٹر سائیکل کا پیٹرول لیتا ہے تو اس پر ٹیکس دیتا ہے۔ وہ زندگی کی ہر بنیادی ضرورت خریدنے پر ٹیکس صورت میں جرمانہ ادا کرتا ہے۔جبکہ اس کی اتنی آمدنی نہیں ہے جتنا پیسہ حکومت پاکستان اس کی جیب سے نکال لیتی ہے۔ وہ ایک ماچس بھی خرید تا ہے تو ٹیکس دیتا ہے یہ ظلم کا نظام نہیں تو اور کیا ہے۔ سیاسی سرکس اور معاشی برزخ تک پھیلے ہوئے اس زرد منظر نامے میں سفید پوش پاکستانی سخت مشکل سے دوچار ہے۔